"ایک اور سانحہ"

لاہور گلشن پارک میں حملے کیبعد ایک دوست کہنے لگا "ایک اور سانحہ" ہو گیا۔اسکی اس بات کو سنکر مجھے شخصے کی بات یاد آ گئی کہ "سانحہ قوموں کی تاریخ میں ہوتا ہے۔ہمارے ہاں تو قوم ہی نہیں تاریخ تو بعد کی بات۔"یوں بھی ہمارے ہاں سانحہ تب تک سانحہ ہوتا ہے جب تک اگلا سانحہ نہ ہو جائے۔بلکہ آجکل حالات دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اگر چند مہینے مسلسل سانحہ نہ ہو تو یار لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے گے"یار کدھرے کوئی سانحہ ہویا کہ نہیں"، جن چند ایک  گھروں میں اخبار پڑھی جاتی ہے وہ کسی نئے سانحے کی خبر نہ ہونے پر آںکھیں مل کر دوبارہ اخبار پڑھینگے،تاکہ کسی سانحے کی خبر مل اور انکے دل کو تشفی ہو۔یوں سانحے پر سانحے ہوتے چلے جارہے اور ہم اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے۔
جب کسی دوسری قوم کے ہاں سانحہ ہوتا ہے تو وہ اپنی ساری پالیسیاں بدل کر سانحہ کی وجوہات کی جڑ میں پہنچ کر انکو اکھاڑنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتی ہے تاکہ آئندہ ایسے سانحات  سے بچا جا سکے۔زیادہ دور نہ جائیں تو فرانس کے دارلخلافہ پیرس میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعے کیبعد فرانس نے شدت پسند عناصر کیخلاف سخت ترین پالیسی اپنائی اور انکا سدباب شروع کردیا۔ جبکہ ہمارے ہاں کہانی اسکے بلکل برعکس ہے ہم ہر سانحہ کو سیاسی رنگ دینے اور پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ دوسری قوموں میں سانحہ ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں صوبوں اور شہروں میں سانحہ ہوتے ہیں۔ جس صوبے میں سانحہ ہوتا ہے تنقید کے رخ اس صوبے کی حکومت کیطرف ہو جاتے ہیں اور باقی جماعتیں اس صوبے کی حکمران جماعت کیخلاف پوائنٹ اسکورنگ میں مشغول ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں سانحات اس تیزی سے ہو رہے ہیں کہ "بقول شخصے تھوڑی دیر بعد جب ہم سویرے اٹھا کرینگے تو فیسبک ہمیں بتایا کرے گی آج پاکستان کی تاریخ میں فلاں سانحہ ہوا تھا اور اکثر ایک دن میں دو،دو بلکہ تین،تین سانحات کی اطلاعات(نوٹیفیکیشن) بھی موصول ہونگی"۔وطن عزیز میں جب کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ہر طرف خوب واویلہ مچتا ہے جو چند دن جاری رہتا ہے۔اور پھر عوام اپنے،میڈٰیا اپنے،اور حکومت اپنے کام میں مشغول ہو جاتی ہے۔اور پھر ہمیں تب دوبارہ جاگ آتی جب اگلا سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔بقول شخصے ملک خداداد میں "امن کا زمانہ،ایک سانحے سے اگلے سانحے تک کا دور ہے"۔ اور یہ دور ہم خوب مزے لے لیکر گزارتے ہیں۔
اب ہمارے ہاں سانحات کو اہمیت بھی اس بنیاد پر دی جاتی ہے اسمیں جانی نقصان کتنا ہوا اور جنکا جانی نقصان ہوا انکی حیثیت کیا ہے۔ اگر کسی واقعہ میں دس سے بیس تک لوگ شہید ہوں۔تو اسکی خبر بس چند گھنٹوں تک ہی چینلز کی زینت بنتی اور اگلے دن کے اداریہ میں چند ایک ہی کالم اس خبر کے متعلق ہوتے۔ جب شہداء کی تعداد تیس  سے بڑھتی ہے تو میڈیا میں اس سانحے کا قد بڑھ جاتا ہے اور پھر وہ تین،چار دن تک چلتا ہے۔اور اصل سانحہ وہی ہوتا ہے جسمیں شہداء کی تعداد ساٹھ سے سو تک ہو ۔پھر جا کر سانحہ سانحہ قرار پاتا۔ میڈیا اس سانحہ کو وقت دیتا ہے۔ حکومتی مشینری عمل میں آتی ہے۔وزراء اور حزب اختلاف کے لیڈر ہسپتالوں کا دورہ کرتے۔ اور پھر یہ قصہ ہفتہ بھر چلتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ سانحہ بھی مر جاتا تاآنکہ اگلا سانحہ وقوع پذیر ہو جائے۔اسکے علاوہ  سانحے کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لئے دیکھا جاتا ہے کہ سانحے کے ورثاء کون ہیں۔اگر وہ تو کسی دور دراز کی یونیورسٹی، کسی پیر کے مدرسے کے باہر، یا مزارعوں کے بچے ہوں تو خیر، لیکن  اگر لواحقین جرنیل،کرنیل ہوں تو سانحے کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔
بقول فاخرہ بتول صاحبہ " سانحہ کتنا بڑا ہے، سانحے کو کیا پتہ ہو"۔ ہمارے ہاں اب غم و غصہ کا اظہار بھی جانی نقصان دیکھ کر کیا جاتا۔ جیسا کہ اگر بلاول صاحب کے پروٹوکول سے ایک ننھی جان چلی جائے تو وہ سانحہ نہیں ہوتا۔ چند گھنٹوں میں غریب والدین سے سیٹلمنٹ ہو جاتی ہے اور بھٹو پھر سے زندہ ہو جاتا ہے۔ پشاور میں  شہداء کے بچوں کی خاطر تو آئے روز نغمے جاری ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن قصور میں وسیع پیمانے پر باقاعدگی سے بچوں کیساتھ جنسی تشدد کیا جاتا لیکن چند دنوں میں وہ بات ٹھپ ہو جاتی۔ یہ کوئی سانحہ تھوڑی تھا یہ تو بڑے وڈیروں کی تفریح کا سامان تھا۔ان  کمی، کمین مزارعین کی کیا حیثیت ہے ۔ اگر اس قوم میں سانحے ہوتے ہوتے تو تھر میں مرنے والوں، اور پنجاب کے ہسپتالوں میں مرنے والے بچوں پر بھی گیت جاری ہوتے۔ ان کی جانیں یوں ضائع نہ ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں سانحے نہیں محض واقعے ہوتے ہیں بقول شاعر
"حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر"
سانحہ کیا ہوتا ہے اس ماں سے پوچھو جس نے اپنا بچہ کھویا ہے، اس بہن سے پوچھو جس نے اپنا بھائی، اور اس بیٹے سے پوچھو جس نے اپنا باپ کھویا ہو۔اس خاندان سے پوچھو جسکا اکیلا وارث دار فانی سے کوچ کر جائے۔  کبھی  وقت ملے تو خود سے بھی پوچھ ہی لینا  اس سانحے سے ہم پر کیا  گزری اور ہم نے کیا اثر لیا ہے۔بہرکیف قوم کو نیا سانحہ مبارک ہو امید ہے اس دفعہ "امن" کا دور طویل ہو گا اور اس واقعہ کو بھی  چند دن زیادہ پذیرائی ملے گی۔اس واقعہ مجرمان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا جو بظاہراً تو ممکن نہیں لیکن امید کرنے میں کیا حرج بہرکیف بات طویل تر ہوتی جا رہی تو اک کو یوں ختم کروں گا کہ
" بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 تبصرے

Click here for تبصرے
1 اپریل، 2016 کو 9:57 AM ×

وقت پرورش کرتا ہے برسوں
وغیرہ

Balas
avatar
admin
2 اپریل، 2016 کو 6:49 PM ×

یہ نا تھی ہماری قسمت ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ

Balas
avatar
admin
4 اپریل، 2016 کو 1:23 PM ×

عمدہ تحریر ایک حساس ذہن کی تخلیق،
سانحات اب زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، آپ نے سانھات کی درجہ بندی خوب کی ہے کہ فی زمانہ یہی ٹرینڈ چل پڑا ہے ورنہ سانحہ تو ہر وہ واقعہ ہے جہاں کسی پر بھی زیادتی ہوئی ہو کسی کے بھی حقوق سلب کیے گئے ہوں۔ خدا ہم سب کو ہدایت دے، اور اس دیوانے کا خواب بھی تعبیر پاجائے۔

Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔