ایک میچ کا آنکھوں دیکھا حال

اردو (ب) کا پیپر ہاتھ میں پکڑتے ہی میں جس سوال پر میں پہلی نظر ڈالتا تھا وہ مضمون کا ہوتا تھا۔ میں بس یہ تلاشتا تھا کہ "ایک میچ کا آنکھوں دیکھا حال" یہ عنوان ہے یا نہیں۔ اول تو یہ عنوان لازم ہی مل جاتا تھا ہاں کبھی درمیان میں "ہاکی میچ کا آنکھوں دیکھا حال" ہوتا تو کبھی فٹبال کا،لیکن میں نے جب بھی لکھا کرکٹ کے میچ کا حال ہی لکھا۔ ایک تو ٹی ٹوئنٹی کا تب دور نہ تھا دوسرا 20 نمبر کا سوال ہوتا تھا تو ٹیسٹ کے نام پورے پانچ صفحے کا مضمون لکھ کے آتا۔ یہ مضمون مجھے اسقدر ازبر تھا کہ کوئی بھی عنوان ہو میں اس میں میچ کا حال ضرور لکھ کہ آتا۔مثال کے طور پر ایک دفعہ عنوان تھا "تاریخی عمارت کی سیر" میں نے مضمون یوں شروع کیا:
پچھلے اتور کو ہم ماسٹر صاب  کیساتھ لاہور کی تاریخی عمارتوں کی سیر کو گئے۔ سب لڑکے بہت پرجوش تھے ۔جب ہم وہاں پہچنے تو شاہی قلعے کے باہر لڑکے میچ کھیل رہے تھے۔ میچ دو قسم کے ہوتے ہیں اولاً ایک روزہ ثانیاً ٹیسٹ آگے بلاں بلاں بلاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں یہ بہت ہی شاندار سفر تھا ہم سب نے بہت لطف اٹھایا ۔ واپسی پر ماسٹر اسلم صاب نے ہم میں ریوڑیاں بانٹی ہم سب ہنسی خوشی گھر چلے گئے۔ تمت بالخیر۔
ایک دفعہ عنوان آیا "ریل کے سفر پر" یہ عنوان پڑھ کر تو میں ہکا بکا رہ گئے میرے پنڈ کے تو قریب قریب سے بھی ٹرین کا ٹریک نہیں گزرتا سفر کہاں خیر مضمون شروع کیا کہ ٹرین کا اسٹیشن ہمارے گاؤں سے تقریباً 10 کوس دور ایک گاؤں میں ہے بے بے نے کھانا ساتھ باندھ دیا اور چاچا غفورا اپنا تانگہ لیکر آ گیا ہم اسٹیشن پر پہنچے ٹرین آئی اپنی منزل کو رواں دواں ہوئے جب ٹی ٹی آیا تو انکے ہاتھ میں ریڈیو تھا اس پر ایک میچ کی رواں کمنٹری جاری تھی میں نے ٹی ٹی صاب سے اسکورپوچھا۔ اور میچ کے متعلق ان سے اظہار خیال۔ آگے شروع ہوتا ہے میچ کا حال وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ اختتام یوں ہوا کہ سارے ڈبوں سے ٹکٹ چیک کرنے کیبعد ٹی ٹی ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا اور ہم سارا رستہ کمنٹری سنتے گئے ۔ یہ ایک بہت ہی یادگار سفر تھا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ماسٹر اسلم صاحب بہت غصے میں آئے اور آتے ہی کہا سب "علامہ اقبال" پر مضمون لکھوں ورنہ سارا دن کان پکڑواؤں گا۔ ساتھ والا کہنے لگا "لے بھئی اج گھر لڑ کے آیا ای، بڈھی ناشتہ وی نہیں دتا" لیکن میں جلدی سے صفحہ نکالا اور لکھنا شروع کیا علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو پیدا ہوئے اسلئے ہمیں 9 نومبر کو بہت خوشی ہوتی ہے (چھٹی کی)۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔ پھر ذکر آیا شاہین کا کہ سر علامہ محمد اقبال کو شاہین بہت پسند تھا۔ اور مجھے بھی چونکہ شاہین جہاں بھی میچ ہو اڑ کر جا کر دیکھ سکتا ہے جیسے آج سڈنی میں میچ تھا صبح صبح اٹھ کر رضائی میں مُنہ دیے یہ میچ دیکھنے کا بہت مزہ آتا یہی وجہ کہ مجھے کینگروز کے مُلک میں کھیلی گئی سیریز کا بے صبری سے انتظار رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر تفصیلِ میچ اور اخر میں یہ اقبال کا شاہین بہت بُلند تھا اسقدر بُلند کہ اب ہم سے اتنا دور نکل گیا بس ہر سرکاری اسکول کے باہر دو چار شعروں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ باقی ہمیں ایسی کسی بھی خوبی سے کوئی سروکار نہیں اور حاصل کے خواہاں شکریہ۔۔۔۔۔۔
اور ایسے ہی بیشمار مضمون دوسرے بھی لکھے تھے اور یقیناً آپ سب نے بھی لکھیں ہونگے تو آپ سب پوچھ رہے ہونگے مجھے یہ "آنکھوں دیکھے میچ کا حال" کا خیال کہاں سے آیا ؟؟تو جی آج جب میں دوبارہ کھوکھے والے چاچے کےپاس پہنچا اور کہا چاچا میچ دیکھنے ہے تو چاچے نے ایک دفعہ میری طرف دیکھا اور پھر چھوٹے سے کہا چھوٹو میچ لگا اور درجن چائے بنا دے کیونکہ گزشتہ روزمیں ال کلاسیکو دیکھتے آدھی درجن چائے ہڑپ کر گیا تھا۔  پہلے تو چاچے نے میچ دیکھ کر میری طرف دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں "اے کیہ اے؟؟" پھر کل والی چائے کا حساب لگا کر یوں مںہ پھیرا "جیسے کہہ رہے چلو ٹھیک اے جو وی اے"۔
اب جو میچ شروع ہوا تو چاچے نے پہلا سوال کیا؟؟ اسکے اسکور کا کیا حساب ہوتا ہے۔ میں نے سمجھانے کی اپنے تئیں کوشش کی پر چاچا کہنے لگا چل ویکھی جا میینوں کی پر اے گورے وی ناں کوئی وکھری کھیڈ ای کھڈدے نیں۔ میں نے دل ہی میں کہا چاچا کچھ نہیں ہے تو چپ کر دیکھنے دو۔ چپ تے توں وی نہیں کردا۔ تھوڑی دیر گزری تو سائیڈ لائن پر کھڑی لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو آؤٹ قرار دیا تو چاچا پوچھنے لگا کہ یہ نو بال کیوں دے رہی اسکو یہ بات سمجھائی کہ چاچا یہ نو بال نہیں بلکہ بتا رہی کہ گیند کورٹ سے باہر لگی ہے تو پاس بیٹھا ایک کہنے لگا یہ لڑکی بار بار تولیہ لیکر کیوں آ جاتی ہے۔ اسکے سوال کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے میچ پر توجہ دینا چاہتا ہی تھا۔ ایک شخص آیا کہنے لگا استاد جی دو منٹ خبراں تے سن لین دیو۔ اب انہوں نے جو خبریں سننے شروع کی تو بمشکل تب جا کر واپس میچ پر کرنے کی اجازت ملی جب پہلا ہاف فیڈرر ہار چکا تھا۔
اب دوسرا سیٹ شروع ہوا تو میں نے چاچے سے التجا بھی کی کہ چاچا ہن آرام نال ویکھن دے کجھ نہ پچھی چاچے نے حامی تو بھر لیکن ساتھ ہی پوچھ لیا۔اے جہیڑا کرسی تے چڑھ کے بیٹھا اے کیہ کردا اے ؟؟ میں نے بتایا کہ یہ ریفری ہے جیسے کرکٹ میں ایمپائر ہوتا ہے تو کہتا اتنا اوپر کیوں بیٹھا ہے گیند لگنے سے ڈرتا ہے۔ میں نے سنی ان سنی کرکے میچ کیطرف متوجہ ہوا تو کسی نے آکر خبر دی کہ زلزلہ آیا چاچے نے جھٹ نیوز چینل لگا دیا اسپر وہی خبریں چل رہی "زلزلے کی شدت چھ اعشاریہ دو تھی ، عوام کلمہ کا ورد کرتی رہی ، مرکز افغانستان تھا، زلزلہ 100 میٹر گہرا تھا"۔ وغیرہ وغیرہ اب شروع ہوئی اسپر بحث کہ آیا یہ ہمارے لئے وارننگ ہے ، ہماری کرتوتوں کا انجام ہے۔ ہمیں خبردار کیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا چاچا  چند دن پہلے زلزلہ آیا اسکے بعد کونسا مسجد میں حجرہ بنا کر بیٹھ گئے تھے۔ یا اسکے بعد دودھ میں پانی کم کر دیا۔ یا اسکے بعد بجلی کے کنڈے اتار دیے۔ جب کچھ کرنے ہی نہیں تو یہ تبلیغ میں نے سنتے ہی رہنا میچ لا دے اک واری۔ اب میچ شروع ہوا ہی تھا کہ دو اور گاہک آ گئے انہوں نے آتے ہی کہا چاچا دو چائے تے ذرا "مجرا" لا دے چاچے نے کہا چل پتر دو منٹ میں نے کہا ہاں لگا دو ہن کہیڑا زلزلہ آنے رک گئے ہیں۔ خیر اسکے بعد اسٹیج ڈرامہ لگا۔ اسکی جگتوں سے محظوط ہونے کیبعد جب دوبارہ میچ لگا تو معلوم پڑا کہ فیڈرر ہار چکا میں مُنہ لٹکائے اٹھ کھڑا ہواتو چاچے نے کہا آج تو پیسے دیتے جا کل کے بھی رہتے ہیں میں نے کہا چاچا تیری چاء ای منحوس سے کل وی ہر گئے اج وی کوئی نئیں دینے پیسے۔ چاچے نے پہلے تو صلواتیں سنائی  پھر کہ اچھا اے تے دس جتیا کون اے ؟؟ جوکووچ کیطرف اشارہ کر کے بتایا یہ جیت گیا چاچے نے کہا "اچھا اے چوئی دے مُنہ آلا جت گیا مُنہ آلا جت گیا اے مینوں دوجا پسند سی"۔ایک دفعہ تو چاچے کی پسند پر چاچا پسند آ گیا۔لیکن چونکہ دوران میچ چاچے کے سوالوں سے عاجز آیا تھا (چونکہ ہماری نسل  عاجز بھی بہت جلدی آ جاتی تو) ستے سے مُنہ سے کہا چاچا رین دے ہن تیرے کول میچ ای نہیں ویکھنا۔ تو نظر لا دینا اے میری ٹیم نوں۔
یہ تھا میرے آج کے ایک میچ دیکھنے کا آنکھوں دیکھا۔ جس میں میچ تو کم دیکھا لیکن اس حال نے ماضی کے ان میچز کی ضرور یاد دلا دی جو پیپروں میں لکھ لکھ آتا تھا سوچا جہاں اتنی کہانیاں لکھیں ایک اور سہی وہاں تو استاد جی پڑھتے ناں تھے چونکہ ہر دفعہ مضمون میں اچھے نمبر آتے جب کہ باقی سوالوں پر کانٹے ہی لگے ہوتے شائد آپ ہی یہاں پڑھ لیں۔ تمت بالخیر ۔



تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔