پیار کا پہلا شہر از چچا جی

پیار کا پہلا شہر از چچا جی

چچا جی "مستنصر حسین تارڑ" صاحب سے اپنی محبت تو پرانی ہے لیکن انکی محبت کا قصہ پڑنے میں کافی تاخیر ہو گئی۔ ویسے چچا جی کو محبت تو ہر سفرنامے/کہانی/قصے/کتاب/ناقل میں ہو جاتی اور انکی ہر کتاب پڑھ کر ہماری ان سے محبت میں ایکدفعہ پھر سے بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن پیار کا پہلا شہر پڑھ کر ایسا نہ ہوا۔ اسکی وجہ شائد یہ تھی کہ کتاب کے متعلق پہلے بہت تعریف سن چکا تھا،لیکن کتاب میں وہ لطف نہیں پایا شائد جن لوگوں سے تعریف سنی تھی وہ  چچا کی "بہاؤ" اور "اے غزال شب" سے نابلد ہیں۔
کتاب سفرنامہ نما ناول اور ناول نما سفرنامہ ہے۔کتاب کا مرکزی کردار سنان نامی ایک نوجوان ہے جو لاہور کا رہائشی ہے اور سیاحت کا شیدائی ہے۔ اسی شوق میں وہ لاہور سے نکلتا ہے بحری جہاز پر ترکی،روس،یونان وغیرہ وغیرہ اور دیگر یورپی ممالک  سے ہوتا ہوا لندن پہنچتا ہے۔ جہاں سے اسکو پیرس اور وہاں سے اندلس (اسپین) جانا ہوتا ہے۔لیکن لندن سے پیرس کے بحری سفر کے دوران اسکو "پاسکل" نامی لڑکی ملتی ہے۔ جو نسوانی حسن کا چلتا پھرتا "مجمسہ وینس" ہے لیکن ایک حادثے میں لنگڑی ہو جاتی ہے۔دونوں محو کلام ہوتے ہیں اور وہاں سے احساس پسندیدگی پروان چڑھتا ہے ۔ فرانس کی بندرگاہ پر اترتے وقت سنان کو حسن کی اس مقدس دیوی میں لگے داغ کا معلوم ہوتا اور پھر احساس پسندیدگی کیساتھ احساس ہمدردی بھی جاگتا ہے۔  دوران سفر (پیرس کے)  دونوں احساس ملکر دنیا کے سب سے بڑے احساس محبت میں بدلتا جاتا ہے۔اسی محبت کے اتار چڑھاؤ کی کہانی ہے جو ایفل ٹاور سے دریائے سین جیسے خوبصورت نظاروں کیساتھ مومارت جیسے علاقے کے  نشیب  اور شانزے لیزے کے فراز سے گزرتی ہے۔
چچا جی سے محبت تب سے ہے جب وہ صبح سویرے پی ٹی وی پر برآجمان ہوتے تھے اور ڈنٹونک کا اشتہار ہمارا مُنہ چڑھایا کرتا تھا۔24/7 نشریات کا ابھی آغاز ناں ہوا تھا صبح چھ بجے تلاوت کلام پاک سے نشریات کا آغاز ہوتا جسکے اختتام پر خوبصورت اور جامع دعا ہوتی اب جب یہ دعا سنتا تو شخصے کے اس قول پر مجھے مزید محکم یقین ہو جاتا کہ "مولوی کی دعا اور ماں کی بد دعا کبھی نہیں لگ سکتی" خیر  پھر سات بجے کی خبریں اور اسکے بعد چچا جی آ کر سلام دعا کرتے اور پھر 10 منٹ کے اشتہاروں میں تھوڑا سے کارٹوں دیکھائے جاتے جنکی خاطر ہمیں چچا جی سے پیار تھا۔ پھر یہ پیار توثیق حیدر سے بھی ہوا لیکن پھر یوں ہوا کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
 چچا جی سے محبت وقت کیساتھ پروان چڑھتی رہی خواہ وہ "شادی آنلائن" ہو ، "شمشال بےمثال" ہو یا "نانگا پربت" ہماری چچا جی سے محبت کی بیل کی آبیاری ہوتی رہی۔ایسا نہیں کہ اس بیل پر ہمیشہ بہار ہی رہی ہو اس نے خزاں بھی دیکھی ہے جو کہ "پرندے" ناولٹ  "اُندلس میں اجنبی"کی صورت میں تھی۔ اب "پیار کا پہلا شہر" بھی اس سلسلے کی کڑی ہے جب بیل کے پتے جھڑ جاتے لیکن امید ہے کہ اب جاڑے گزر جانے کیبعد "ڈاکیہ اوو جولایا" یا "خس و خاشاک زمانے" پڑھ کر اس پیار کی بیل پر الفت کی نئی اور تازہ کونپلین پھوٹیں گی۔
اگرچہ چچا جی اس سے قبل بھی کتاب لکھ چکے تھے لیکن ناول کی صورت میں چچا جی کی یہ پہلی کتاب تھی شائد یہی وجہ ہے اس کیساتھ وہ، وہ انصاف نہیں کر سکے جسکی میں توقع کر رہا تھا۔دوسرا چچاجی ناول کو ڈرامائی لحاظ سے لکھا جیسا کہ ناول کا آخری سین جہاں سنان ٹرین پر سوار ہو کر اسپین کو نکلتا ہے کہ پاسکل اسٹیشن پر داخل ہوتی ہے، گاڑی کیطرف دوڑتی، سنان کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالتا۔ اور سنان پلیٹ فارم پر گر جاتی ہے۔ یہ پڑھتے ہوئے گمان گزرا کہ شاہ رخ نے کاجل کو اسی سین سے تراشا تھا "دل والے دلہنیا لےجائینگے" میں بس وہ وہاں یہ تیزی دیکھا گیا کہ امریش پوری صاحب سے مار کھا لی مگر "سمرن کو زندگی جینے کی اجازت مل گئی" جبکہ یہاں چچا جی مسافر بنے آگے نکل گئے۔ اسلئے ابھی بھی بھٹکتے پھرتے ہیں۔ 
بہرکیف ایک بات چچا جی کہ ہر سفرنامے کیطرح اس کتاب میں بھی کمال کی تھی پیرس کو یوں کھول کر بیان کیا ہے قاری کو یوں محسوس ہوتا کہ وہ خود پیرس کی گلیوں میں پھر رہا۔مشہور کافی ہاؤسز سے کافی پی رہا ہے۔ میوزیم میں خود وینس کے بازو کٹے مجسمے کو دیکھ رہا ایفل ٹاور دیر سے پہنچنے پر اسکے حسن سے متاثر نہیں ہوتا۔ نپولین کے دربار پر حاضری تو دیتا ہے (ہاں چادر چڑھانے کی سعادت سے محروم رہتا ہے)دریائے سین کے کنارے خود بھی سیر کر رہا ، یا پھر شانزے لیزے پر گاڑی میں خود بھی سنان اور پاسکل کیساتھ دبکا بیٹھا ہے یا ندی کنارے مشہور دھن پر محو رقص ہے۔
اگرچہ مقصدِ بلاگ "پیار کا پہلا شہر" کتاب کا حال لکھنا تھا۔لیکن چچا جی کا پیار اس پر حاوی رہا اور کتاب کے تعارف سے زیادہ اسکا ذکر رہا۔(ہائے ابھی بھی اس کا مکمل اظہار نہیں کر پایا) لیکن اختتام یوں کروں گا کہ چچا جی کا شمار بلاشبہ اردو کے بہترین لکھاریوں میں ہوتا ہے اور حیات ادیبوں میں سرفہرست انکا ہی نام ہے۔اور اگر انکو ناں پڑھا جائے اور اردو ادب سے محبت کی بات کیجائے تو یہ ایسے ہی جیسے سردیوں میں کسی گاؤں کو جایا جائے اور ساگ کھائے بنا واپسی ہو جائے۔جیسے آپ کو اس بے تکی کہاوت کی سمجھ نہیں آئی ایسے ہی چچا جی کو پڑھے بنا ان سے محبت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔شکریہ۔
نوٹ: مجھ سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

پیار کے پہلا شہر سے اقتباس!!۔

  1. ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ
    ﺑﺪ ﺻﻮﺭﺕ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﺴﮯ
    ﺟﺬﺑﮯ ﮐﯽ ﭼﺎﮬﺖ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ
    ﺩﻝ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ
    ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮐﺮ
    ﺩﺋﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ-
    ﭘﯿﺮﺱ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﮑﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﮯ
    ﺳﺎتھ
  2. ایک عورت کے لئے اس سے بڑھ کر خودکشی کا اور کیا جواز ہوسکتا ہے کہ دوسری عورت نے بھی اس جیسے رنگ اور ڈیزائن کے کپڑے پہنے ہوں


  

تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔