نوکیا نامہ: ایک دہائی کے عروج و زوال کی داستاں!!


نوکیا،فن لینڈ میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ نوکیا کی کل آبادی تقریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اسکا رقبہ محض 350 مربع کلو میٹر ہے۔ یہ قصبہ نوکیا ورٹا دریا کے کنارے آباد ایک انتہائی خوبصورت جگہ  جہاں سال کے بیشتر وقت ٹھنڈ رہتی ہے۔ یہاں کی ٹھنڈ بھی ایک جداگانہ اندازرکھتی ہے۔ نوکیا میں برف  باری کا بھی ایک خاص سحرانگیز انداز ہے۔ یہاں کے لوگ چلتے  ہیں تو دل کش انداز میں  اور رکتے ہیں تو  پرافسوں انداز میں ۔ ان کا بولنا، ہنسنا، دیکھنا، نہ دیکھنا سب ہی دل آویز ہے۔ جب وہ بات کرنے لگتے ہیں تو ہونٹوں کو بھی ایک دلربا انداز میں سکیڑتے ہیں۔ کافی پینے  کا انداز بھی  انتہائی آرٹسٹک اورباقی دنیا سے جدا ہے۔ وہ اپنا لباس بھی ایک خاص دلفریب انداز سے اوڑھتے ہیں ۔ ۔ 

نوکیا ایک صنعتی شہر ہے جہاں ربڑ، ٹائر، ٹیکسٹائل کی صنعتیں ہیں لیکن اس شہر کی اہم بات "نوکیا" پیپر مل ہے جو 1865 میں قائم کی گئی۔ اس پیپر مل نے  ہی  اپنے قیام کے لگ بھگ 140 سال بعد اس قصبے کو پوری دنیا میں مشہور کر دیا۔ یہ پیپر مل وقت کی کروٹوں کے ساتھ ساتھ نوکیا موبائل کمپنی میں تبدیل ہوگئی۔1995 میں نوکیا کا ریونیو 8ملین ڈالر تھاجو 2007ء میں بڑھ کر 75 ملین ڈالرز تک پہنچ گیا۔ اس وقت نوکیا  کی بڑی حریف موٹورولا کمپنی تھی۔92ء سے موبائلز کی  لاؤنچنگ  کے بعد  موبائلز کی سب سے زیادہ فروخت کا ریکارڈموٹرولا کے  پاس تھا۔  یہ سلسلہ 98ءتک چلا  اور پھر سال کے سب سے زیادہ بکنے والے موبائل  کا ریکارڈ نوکیا کے سیٹ 6210  کے حصے میں آیا ۔ ۔99ء میں بھی سال کے سب سے مقبول موبائل کاہ اعزاز نوکیا کے پاس ہی رہا۔

جب نئی صدی کا سورج طلوع ہوا تو اس نے جہاں دنیا کو نئی جہتیں  دکھائیں وہاں نوکیا کو بھی  ایک نئی جلا بخشی۔ 2000ءمیں نوکیا نے 3310  کے نام سے اپنا نیا موبائل لاؤنچ  کیا جس نے موبائل فون کی تاریخ کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس زمانے میں  نوکیا کمپنی آئے روز نئی بُلندیوں کو چھو رہی تھی۔ نوکیا کمپنی کے ساتھ  قصبے اور مُلک  کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوا اور اس کے لوگوں کی زندگی میں بھی خوشحالی  آئی۔ نئی صدی نوکیا اور فن لینڈ کے لئے خوشخبری پر خوشخبری لا رہی تھی۔ نئی  صدی  کی پہلی دہائی کے نصف میں نوکیا نے  ایک اورنیا ماڈل 1100 کے نام سے پیش کیا۔ اس سیٹ نے مارکیٹ کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے  اس موبائل کے تقریباً250ملین سیٹ فروخت ہوئے۔ نوکیا اس وقت اپنے عروج پر تھا۔  وہ موبائل انڈسٹری کے کرتا دھرتا تھے اور جیسے سبھی کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ نوکیا نے آئندہ آنے والوں برسوں میں مارکیٹ میں  اپنی گرفت مزید مضبوط کی۔ 05ءمیں بھی  نوکیا  دنیا بھر کی  32فیصد مارکیٹ پر قابض تھا۔ 06ءمیں 34  فیصد، 07ءمیں فیصد 37  جبکہ 08ء  میں یہ تاریخ کی بلند  ترین سطح یعنی 38 فیصد تک پہنچ گیا۔

 07ء تک موبائل صنعت کا بڑا حصہ نوکیا کے ہاتھ میں تھا۔ دنیا بھر میں نوکیا کا چرچا تھا۔ لوگ نوکیا کے موبائلز کو گارنٹی اور مضبوطی کا معیار مانتے تھے۔  یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھاایک شخص  کچھ نئے خواب دیکھ رہا تھا ۔ اسٹیو جابز نامی اس شخص نے آئی فون کے نام سے نیا موبائل پیش کیا جس کے اس سال 23 لاکھ سیٹ بکے ۔ نوکیا کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ آئندہ سال یعنی 08ءمیں ایک اور سسٹم متعارف کروایا گیا جسے اینڈرائڈ کہا گیا۔ مختلف کمپنیوں نے اسے خریدا جن میں سام سنگ سب سے آگے تھی۔ اب مارکیٹ تین مختلف حصوں میں بٹ گئی۔
 

بدقسمتی سےنوکیا والوں نے آنے والے نئے رجحانات پر غور نہیں کیا اور  اپنے آپ میں مگن رہے جس کے باعث آئندہ سال مارکیٹ میں  ان کا شئیر کم ہو گیا اور سام سنگ کے شئیر میں  کسی قدراضافہ ہوا۔تاہم  یہ اضافہ اتنا بڑا نہ تھا کہ نوکیا کو ان کے خواب غفلت سے جگا سکتا۔ آئندہ برسوں میں ایپل مزید ابھرا جبکہ سام سنگ بھی اپنی مارکیٹ پھیلاتا ہی  چلاگیا۔ یوں نوکیا والوں کا شئیر نیچے گرنے لگا۔ مزیددو برس اگرچہ نوکیا ہی اوپر رہا لیکن مارکیٹ پر ان کے قبضے کا مارجن بتدریج کم ہوتا گیا بالآخر 12ء میں جا کر نوکیا کی  12 سالہ بادشاہت  زمین بوس ہوگئی  اور سام سنگ نے مارکیٹ کا 22 فیصد شئیر سنبھال لیا ۔ یہی وہ موقع تھا جب نوکیا کمپنی  کے  کان پر ذرا جوں رینگی اور انھوں نے  لومیا کے نام سے ایک  اسمارٹ فون ڈیوائس پیش کی جو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ 13ء  میں ان کا شئیر مزید کم ہوگیا اور 14ء  میں اپنی ساکھ بچانے  کے لیے انھیں مائیکروسافٹ سے الحاق کرنا پڑا۔

بالآخر 2016ء کا وہ تاریخی  دن بھی آ گیا جب نوکیا کو مائیکروسافٹ میں ضم ہونا پڑا۔اس تقریب کے موقع پر آنسو بہاتے ہوئے نوکیا کے سی ای او کا کہنا تھا کہ "ہم نے کچھ غلط تو نہیں کیا لیکن ہم ہار گئے۔نوکیا ایک قابل احترام کمپنی ہے۔ انھوں نے اپنے بزنس میں کچھ غلط نہیں کیا لیکن دنیا بہت جلد بدل گئی۔ ان کے حریف زیادہ طاقتور تھے۔" شائد اسٹیفن ایلوپ صاحب درست کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا لیکن بقول شخصے " آپ کے گزشتہ کل کا فائدہ/برتری آئندہ کل کے رجحانات سے بدل جائے گا۔ آپ کو کچھ غلط کرنے کی ضرورت نہیں جب تلک آپ کے مدمقابل درست لہر کو پکڑ کر درست رستے پر ہیں،آپ ناکام ہو کر ہار جائیں گے۔

نوکیا کی 13 سال کی کہانی اپنے آپ میں بہت بڑی  تاریخ ہے  ایک بہت بڑا سبق ہے۔ کمپنی  نے اپنی 98ء میں اپنی جدت سے برتری حاصل کی ۔ لیکن 07ء اور 08ء میں آنے والی تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہی وہ غلطی تھی جو اسٹیفن صاحب کو نظر نہ آئی اور جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑا۔ یہ کہانی تو محض ایک دہائی کی کہانی ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے نے تو صدیوں سے حالات کے ساتھ نہ بدلنےکی ضد پکڑی ہوئی ہے۔ ہم اپنی فرسودہ روایات اور پرانے طور طریقوں کے گن ہی گاتے رہتے ہیں جیسے میں یہاں  نوکیا  کی ہی مثال دوں تو گلی کے نکڑ پر ایزی لوڈ کرنے والے سے آج  بھی جا کر کہیں  کہ بھائی یہ 3310 اور 1100 تبدیل کر لو تو اب   بھی وہ ان کے ایسے "گن" گنوا دے گا  کہ اسٹیو جابز صاحب کا ایپل بھی شرمندگی محسوس کرنے لگے۔

ہم آج تک 70،80 بلکہ اس سے بھی قبل کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم  نےبحیثیت معاشرہ/قوم/فرد بہتری اور تبدیلی کو قبول نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم خود کو وقت کے ساتھ بدلنے سے احتراز کرتے ہیں اور پھر اپنی شکست خوردہ حالت کا شکوہ  بھی کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا لیکن ہم نے اس تبدیلی کو قبولنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ہاں موبائل  کے مثبت پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئےاسے مسائل کی جڑ کہا گیا، حالانکہ وقت کی کروٹ سے موبائل تو ہمارے معاشرے میں در آیا لیکن اپنے مثبت اثرات کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے من مانے منفی اثرات کے ساتھ، یوں جو ہم پہلے ہی دوسری اقوام سے بہت پیچھے تھے اب  مزید پیچھے رہ گئے۔ اور اگر ہمیں ہوش نہیں آیا تو ہم اسی طرح پیچھے ہی  رہتے جائیں  گے۔ بقول بانو قدسیہ صاحبہ "پیچھے رہ جانے والوں کو کوئی یاد نہیں رکھتا۔" ہمیں وقت کے بدلنے اور آنے والی تبدیلیوں کو قبول کر کے ان کے ساتھ چلنا ہوگا جب تلک ہم یہ قبول نہیں کریں   گے ہم پیچھے اور مزید پیچھے ہوتے جائیں گے یہاں تک کہ  کوئی بھی معاشرہ ہمیں یاد نہیں رکھے گا۔ ہمیں وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو قبول کر کے خودکو  ان کے لئے تیار کرنا ہوگا اسی  میں ہماری بہتری کی امید اور آس ہے۔  بات کو شخصے کہ اس قول سے سمیٹوں گا کہ "جو سیکھنے اور بہتر ہونے سے انکار کرتے ہیں، وہ زیادہ دیر تک مفید اور قابل قبول نہیں رہتے۔ پھر وقت، سخت محنت اور بڑا نقصان ہی ان کو سبق سکھائے گا"۔  

ہم سب میں شائع ہوئی۔


12 تبصرے

Click here for تبصرے
گمنام
20 ستمبر، 2016 کو 9:14 AM ×

boht khoob...

Balas
avatar
admin
20 ستمبر، 2016 کو 4:48 PM × یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
avatar
admin
20 ستمبر، 2016 کو 4:53 PM ×

Now its a need of hour to change ourselves instead of pointing others. Worth reading [o]

Balas
avatar
admin
20 ستمبر، 2016 کو 5:26 PM ×

شکریہ احمد۔۔۔

Balas
avatar
admin
20 ستمبر، 2016 کو 5:27 PM ×

شکریہ خان صاب ۔ڈھیر مہربانی۔۔

Balas
avatar
admin
20 ستمبر، 2016 کو 5:29 PM ×

بہت شکریہ پڑھنے کا۔ امید ہے اس دفعہ بہت سی منفیت میں کچھ مثبیت بھی دکھی ہو شائد۔۔۔

Balas
avatar
admin
21 ستمبر، 2016 کو 12:53 AM ×

زبردست جناب۔ بہت ہی شاندار تحریر۔خصوصاً آخری پیرا میں کمال طریقے سے بات ریلیٹ کی ہے۔
میری بھی چیخ و پکار کا تمام تر مقصد یہی ہے کہ بدلتے وقت کو صلواتیں سنانے اور ماضی میں مدفون رہنے سے کچھ نہیں ملنے والا۔ بدلتے وقت کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور اس کی مناسبت سے خود کو تبدیل کرنے کی سعی کی جائے۔
اتنی شاندار تحریر پہ مبارک باد قبول کیجئے۔

Balas
avatar
admin
21 ستمبر، 2016 کو 1:05 AM ×

حجور کیوں کانٹوں پر گھیسٹتے ہیں۔ یہ تو آپکا حسن نظر ہے کہ ایسی تحاریر کو بھی پڑھ کر اپنی رائے نوازتے ہیں۔ اور یہ بلاگ یہ سوچ آپکی چیخ و پکار کی عنایت کردا ہے لہذا انج شرمندہ نہ کیتی کرو۔۔

Balas
avatar
admin
8 اکتوبر، 2016 کو 10:54 PM ×

Muhtram bnda e nacheez ko ap k aglay Blog ka shidat say intizar hai.

Balas
avatar
admin
11 جولائی، 2018 کو 5:01 PM ×

معلوماتی مضمون کا شکریہ

Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔