ڈی جا وو (Déjà vu)

ڈی جا وو سے تعارف تو پرانا ہے لیکن انتہائی کھڑوا کھسیلے جسکو نا چاہتے ہوئے بھی نگلنا ہی پڑا۔ بعد میں بہت سے لاحاصل کوششیں کی اسکو ذہن سے  محو کر دیا جائے لیکن  ماضی کی  ناگوار یادوں کی مانند ایسا چمٹی کہ اب بقول شخصے "چھٹتی نہیں یہ کافر مُنہ سے لگی ہوئی"۔لیکن گاہے بگاہے جہاں بھی موقع ملتا میں میں اس غم پر نیروں کے موتی بہا دیتا ہوں۔اور یہ بلاگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ڈی جا وو فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے "پہلے ہی دیکھا گیا"۔اس لفظ سے پہلا تعارف ایک بلاگ میں ہوا تعارف نا کہیں یوں کہیں کہ شناسائی ہوئی، پہلی دفعہ اس بلاگ میں لفظ پڑھا، لگاتو دلچسپ لیکن بعد میں گوگل کرنے کا کہہ کر آگے نکل گئے اور بعد "کل" کی مانند آتے آتے ہی آئی۔پھر جنابہ "سڈنی شیلڈن" صاحبہ کے ایک کتاب "مارننگ،نون اینڈ نائٹ" میں تھوڑا تفصیلی ذکر پڑھا۔ اب کی بار جی میں ٹھان لی کتاب ختم کرتے ہیں اسکو "گوگلانا" ضرور ہے لیکن ابکی بار بھی تب کی جیسا ہی حال ہوا۔پھر کسی دن ایک دفعہ پھر اس لفظِ نامعقول سے ملاقات ہو گئی اب کی بات تو جھٹ سے پہلے گوگل کر ڈالا پس تب جو پڑھا تو اسکا ساڑ آجتک نکال رہا ہوں،جبکہ اس وقوعے کو برسوں بیت چکے۔
تو جی بات ہو رہی تھی ڈی جا وو کی یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان کو ایسا لگتا ہے کہ بلکل یہی واقعہ/قصہ/کہانی پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکی ہے۔ ہمارے لئے چونکہ یہ نہیں بات تھی تو کافی عجیب لگی، لو دسو ایسا کیسے ہو سکتے ہے "ایویں گوری چمڑی آلیاں نوں تے عادت اے انج دیاں ہانکن دی"۔ اصل میں تب ہم عنفوان شباب کے زیریں دور میں تھے۔مونچھوں کی مسیں ابھی بھیگ ہی رہی تھیں۔ نماز وغیرہ پڑھا کرتے تھے،علاوہ ازیں  میلاد و نعت کی محافل میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اب اس بڑھ چڑھ کر حصے لینے میں کسی کے پاؤں پر چڑھ دوڑے یا کسی ٹانگ پر جوتے سمیت پاؤں بڑھا دیا چہ معنی دارد- ہمیں تو اسٹیج کے قریب جا کر "روح پرور" ان محافل کا لطف ،اور عشق(کسکا وہ الگ بات ہے) میں ڈوبے نعت خواں حضرت کی پرکیف نعتوں کے  سے سرور حاصل کرنا مقصود تھا اب اسکے لئے کسی ٹانگجائے کسی کا سر ہماری بلا سے۔۔اسکے علاوہ جمعرات کے روز، گیارہویں شریف،آئے روز کے ختم و درود شریف کی محافل میں بھی خوب دلجمعی سے حصہ لیتے اور اکثر تبرک لانے اور بانٹنے والی خدمت اپنے سر لیتے۔ خبردار جو کسی نے ایسا سوچا کہ ایسے زیادہ مل جاتا تھا،یاروں کبھی کبھار خالی ہاتھ بھی لوٹناپڑتا تھا۔ ایسے میں ان مستقبل کے خوابوں کی آمد ہمارے خلوص اور عشق کا مُنہ بولتا ثبوت تھے۔ ہم تو ہواؤں میں تھے جلد ہی تعویذ و گنڈا اور اپنی گدی شروع کرنے کے خیالوں میں تھی اب دیکھیں مستقبل کی جھلک اگر مجھے پہلے ہی دکھ جاتی تو چھوٹی موٹی بات تھوڑی تھی، یہ خواص الخاص کا وصف ہوتا تو پھر اگر اس سے مستفید نہ ہوا جائے تو کفران نعمت ہے، اور آپ جانتے ہیں کفران نعمت سے ہمارے بڑے کتنے واویلہ مچاتے ہیں،کئی قسم کی ڈشز دستر خواں پرسجانا اور ہرایک سے چکنا لازم ہے چونکہ نہ چکنا کفران نعمت جو ٹھہری ہاں یہ الگ رہی کہ ہر ایک نعمت پلیٹ میں بچا کر ضائع کردی وہ تو خیر ہے اب سارا تھوڑی کھایا جا سکتا ہے خیر ہم انکی شان میں ایسی گستاخی کے مرتکب بھلا کیسے ہو سکتے تھے تو یہ خواب سجائے پھرتے تھے۔
ڈی جا وو کے متعلق جب پہلے پہل پڑھا تو ایک ناخوشگوار خیال،وہم سمجھ جھٹک دیا کہ آیا ایسے کیسے ہو سکتے ہے بھلا اب ہر کسی کو ایسے تھوڑا محسوس ہوتا ہے۔لیکن پھر تھوڑا سوچا تو گمان گزرا اگر ان مستقبل کی نوید کا تعلق ان وصفوں سے ہے تو پھر ان مشرکوں کو اس پر تحقیق کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ذرا مزید گوگلایا تو معلوم پڑا کہ دنیا کی ون تھرڈ آبادی اس کیفیت سے گزرتی۔ ڈی جا وو کی بابت ایک بات اور کہتا چلوں کہ اس کیفیت کا احساس تب تک نہیں ہوتا جبتک وہ آپکے سامنے نہ آجائے تب یاد/گمان/خیال جو بھی کہہ لیں آتا کہ ہاں یہ تو میں پہلے دیکھ/سن چکا ہوں۔ اور میں نے اسکی تصدیق بھی خود سے کی وہ بھی خاصہ مزاحیہ سا واقعہ ہے اکثر میرے ساتھ ڈی جا وو کرکٹ میچز کے متعلق ہوتا ہے اور میرے خواب بھی کرکٹ ہی کے ہوتے ہیں تو ایک دن خواب میں دیکھا کہ کیویز اور کینگرووز ک میچ ہے۔ کیوی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتی اور دانیال ویٹوری 180 سے زائد رنز بناتے ہیں اور کل ملا کر 400پلس ایک پہاڑ جیسا ٹارگٹ ایسیز کے سامنے رکھتے ہیں۔ جواب میں کینگروز مائیکل ہسی کی ڈبل سینچری کی بدولت ہدف باآسانی عبور کر لیتے ہیں(نوٹ تب تک ڈبل سینچری اسکور نہیں ہوئی تھی)۔میں نے صبح اٹھتے ہی پورے حلقہ یاراں میں پھیلا دی اور پورے یقین و وثوق سے یہ دعوی کر دیا کہ سعید انور کا ریکارڈ اور پہلی ڈبل سینچری ہسی ہی بنائے گا۔ خیر مسٹر کرکٹ اور ویٹوری دونوں کرکٹ سے رخصت ہو گئے لیکن وہ دن نہ آیا۔ مطلب وہ ایک خواب تھا جبکہ ڈی جا وو ایک الگ کیفیت ہے۔ پہلے پہل اسکو ذہنی طور کچھ خرابی بھی قرار دیا گیا لیکن بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں صحتمند افراد زیادہ اس کیفیت سے گزرتے ہیں۔ اب جب یہ یقین ہو چلا کہ ہماری پیری فقیری کا خواب اور وہ لذتیں وہ پرکیف ساعتوں کے روح پرور نظارے سب ملحدوں کی تحقیق کے سبب چکنا چور ہر گئے تو ہمیں خود پر اور ان گوری چمڑی والوں پر شدید غصہ آیا کہ چولو کیا ضرورت ہے ہر چیز کو پرکھنے اور جانچنے کی ہم جو آرام سے اپنی دنیا میں مگن ہیں تسی وی اپنی عیاشیاں تو لطف اٹھاؤ کیوں ساڈے رنگ اچ بھنگ پان دے او۔
اب آپ سوچیں گے یہ سب بپتا اور ان اوٹ پٹانگ لفظوں کا جوڑ توڑ کر کے ایک بلاگ کی صورت میں آپکو سنانے کا مقصد کیا ہے تو بات یہ ہے کہ حسب عادت اس پر  تو میں نے سوچا ہی نہیں چلیں آپ سوچ لیجئے گا چونکہ میرا مقصد تو بس اپنا ساڑ نکالنا تھا جو اب تب اٹھتا جب پیروں فقیروں کو بڑی بڑی گاڑیوں سے نکلتے، کنالوں پر مشتمل بنگلوں کوٹھیوں میں پر آسائش زندگی گزارتے دیکھتا، اور پر خود پر نظر ڈالتا ہوں تو دل سے ایک ہونق سی اٹھتی کہ کیسے میری زندگی کے خواب ایک لفظ کے ہاتھوں پرزہ پرزہ ہوگئے، بس اس ہونک کو نکالنا کے لئے میں نے لفظوں کا آسرا لیا اب معنی کا جامہ آپ خود اسے پہنا دیجئے شکریہ۔
      

1 تبصرے:

Click here for تبصرے
3 اکتوبر، 2015 کو 11:31 PM ×

بہت اعلٰی جناب۔

Selamat آوارہ فکر dapat PERTAMAX...! Silahkan antri di pom terdekat heheheh...
Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔