ہلکا کتا!!!!


فلک سے سرخی آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی تھی، اندھیرا اپنے پَر پھیلا رہا تھا،گھروں میں ہنڈیا کب کی چڑھ چکی تھی تندور پر روٹیاں لگ رہی تھیں،روٹیوں کیساتھ ساتھ سارے دن کا گاؤں نامہ ادھر سے ادھر ہو رہا تھا۔ کچھ دہقان کھیتوں سے واپس آ رئے تھے اور کچھ پہنچ چکے تھے۔گاؤں اپنی مخصوص اور مدہر خامشی میں ڈوبنے کو بیقرار تھا پرندوں کی ڈاریں کب سے اپنے گھونسلوں کو لوٹ چکی تھیں موذن وضو باندھے بس 'فلاح کی جانب" دعوت کا پیغام بلند کرنے کو ہی تھے کہ اچانک گاؤں کی جنوبی طرف سے ایک شوربلند ہوا جو آہستہ آہستہ ہمارے گھر کی طرف کو ہی آتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جوں جوں قریب آتا جا رہا آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں جس سے لوگوں کی چہروں میں فکر اور پریشانی کے آثار بڑھنے لگے کہ اس وقت کیا افتاد آن پڑی۔
میں چارپائی چھت پر ڈالے دو وقتوں کے اس ملاپ کے نظارے سے محظوظ ہو رہا تھا ایسا نظارہ جسکی خاطر وقت سارا دن  کا ہجر کاٹتا اور محض چند لمحوں کے وصال کے بعد فراق کی طویل شب گزارنے کو جدا ہو جاتا لیکن وصل کی اک نئی امید لیکر اگلی صبح پھر اس مسافت کا آغاز کر دیتا۔کہ بےبے کی آواز آئی "تھلے آویں نا باہر ویکھ کس دا شور اے" پہلے تو بےبے کی اس بےوقت دخل اندازی پر خوب جھنجلائے پھر کہا اماں کچھ نہیں ابھی پتا چل جائے گا۔آپ فکر نہ کریں۔اس سے قبل کہ ہمارا فقرہ مکمل ہوتا بے بے کی طرف سے ہمیں چند انتہائی قابل اعتراض القابات سے نوازا جا چکا تھا لہذا مرتا کیا نہ کرتا کہ مترادف ہم نیچے اترے اور یہ معلوم کرنے کی خاطر کہ آیا کیا ماجرا پیش آیا چوک میں پہچنے تو وہاں پہلے ہی مجمع لگ چکا تھا۔ استفسار پر معلوم پڑا ایک ہلکا (باؤلہ) کتے کے شکار کی غرض سے  یہ قافلہ نکلا تھا، اگلے چوک پر ایک نشانے باز نے اینٹ کی چوٹ سے اسکو گرا دیا پھر حسب سابق ہر ایک نے اس کتے کو نشان عبرت بنا کر ثواب دارین کمانے کی اپنی سے سعی کی اور اور اس نیکی میں بھرپور حصہ ڈالا۔
والدہ ماجدہ کی خدمت اقدس میں سارا واقعہ گوش گزار کرنے کیبعد بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہونے کی خاطر مسجد کا رخ کیا،نماز ادا کرکے واپس لوٹا تو ابھی بھی لوگ چہ میگیوئیوں میں مصروف تھے۔ میں نے چلتے چلتے ایک سے پوچھ لیا کہ آیا اس کتے کے پاگل ہونے کا معلوم کیسے پڑا اور یوں ایکا ایکی میں یہ نازل کہاں سے ہوگیا؟؟؟؟حسب امید کوئی تسفی بخش جواب نہ ملا۔کسی نے کہا اُدھر کھتیوں کی طرف سے اندھا دھند دوڑتا چلا آیا جس سے  گماں ہوا کہ پاگل ہے، اور زیادہ تر نے تو بس یہی کہا چونکہ سبھی اسکو پاگل کہہ رئے تھے سو ہم بھی نے بھی اسکو پاگل قرار دے دیا۔انہی تھوڑے جوابات کو بہت جانتے ہوئے گھر کا رخ کیا اور سیدھے چارپائی پر جادراز ہوئے۔ 
اس قصے/کہانی پر تھوڑی سی توجہ کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ ،ہمیں دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے کے لئے کتنی دیر درکار ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں افواہ پھیلانا اور صدق دل سے اسپر ایمان لے آنا کتنا آسان ہے۔اگرآپ کو یقین نہ آئے تو محلے میں چند دوستوں کو بلا کر ایک بے پرکی اڑا دیں اور شام تلک آپ تک وہی بات واپس پہنچ جائے گی لیکن  لوگوں کی قیاس آرائیاں اور تجزیات وغیرہ کے سود کے سمیت۔ ہم میں سے کوئی ایک بھی ایک لمحے کو بھی اسکی تصدیق کرنے یا اسکے سچے ہونے کے متعلق جستجو نہیں کرے گا۔ چونکہ ہم ایک انتہائی مصروف معاشرہ ہیں جہاں ایسی چیزوں کی صداقت کا اندازہ کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت ہمیشہ ہی نایاب رہتا ہے۔ہم کسی چوک یا تھڑے پر بیٹھ کر ایسے واقعات پر گھنٹوں بحث تو کر سکتے ہیں لیکن اسکی تصدیق کے لئے عجلت کی زندگی سے فرصت کے چند لمحے نہیں نکال سکتے۔
ایسے ہی کئی باؤلے انسان بھی آئے روز  شکار ہوتے رہتے ہیں لیکن نہ تو ہمارے پاس انکے باؤلے ہونے کی خبر کی تصدیق کا وقت درکار ہے اور نہ ہی اس بات سے آگاہ ہونے کی فکر کہ اسکو "ہلکا" قرار کس نے اور کیوں دیا آخر ایسی کیا وجہ بنی جو اسکو یوں باؤلہ قرار دےدیا گیا اگر ہم ایسی خبروں کو آگے پہنچانے سے قبل  اپنی انتہائی مصروف ترین زندگی میں چند لمحات نکال کر اسکی صداقت کا پتہ چلانے کی سعی کر لیں تو معاشرے میں ہم آہنگی آنے کی قوی امید ہے  اور اگر اس بات پر اسلام کا نکتہ نظر لیا جائے تو وہ بھی کچھ ایسا ہی مشورہ دیتا نظر آتا ہے۔    
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔