Train To Pakistan by Khushwant Singh

Train To Pakistan by Khushwant SIngh

(ٹرین ٹو پاکستان از خوشونت سنگھ)

سردار خوشونت سنگھ جی کا یہ ناول 1956 میں منظر عام پر آیا۔۔اس کتاب کا شمار برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے لکھی گئی بہترین کتابوں میں  ہوتا ہے۔ کتاب کی کہانی تقسیم کے وقت کی کہانیوں کا احاطہ کرتی ہے،اور ان پر روشنی  ڈالتی ہے۔کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ سردار جی نے ان کہانیوں کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔کتاب کوکافی عرصے سے پڑھنے کا ارادہ باندھ رکھا تھا لیکن پڑھ نہیں پایا اب جب پڑھی تو افسوس ہوا کہ پہلے کیوں نہ پڑھی۔
کہانی شروع ہوتی ہے بارڈر کے ساتھ واقع "مانو مجرا" نامی ایک گاؤں میں ڈکیتی کی واردات سے۔ رام لال نامی ایک ہندو بنیا کے ہاں مالی گینگ ڈکیتی کرتی ہے۔ جبکہ اسی لمحے سردار جگت سنگھ عرف جگے نامی ایک بدمعاش جس پر حکومت کی جانب سے گاؤن سے باہر جانے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ گاؤں کے نابینا امام کی بیٹی نوراں سے گاؤں کے باہر دریا کنارے ملاقات کر رہا ہوتا۔ مالی اور اسکے ساتھی بنیے سے لوٹ مار کے بعد اسکو قتل کر دیتے ہیں جبکہ جاتے ہوئے جگت سنگھ کے گھر چوڑیاں اور رقم کا کچھ حصہ پھینک جاتے ہیں۔
کتاب میں کئی ایک بہترین پہلو ہیں جن میں سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ مصنف نے ہر کردار کو کہانی میں بہت ہی خوبصورتی سے پرویا ہے اور کہانی کے اختتام پر بلاشبہ اس کردار کو کہانی کے لحاظ سے بہترین انجام دیا ہے۔ دوسرا  کتاب میں بیان کی جانے والی کہانیاں اور واقعات بظاہراً تو مختلف اور الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن خوشونت سنگھ جی نے انہیں بہت ہی باکمال انداز سے آپس میں مربوط کیا ہے۔ اور واقعہ اور کہانی کی اہمیت کو خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔
پلاٹ  کے مرکزی کرداروں میں مجسٹریٹ حکم چند (جو ڈکیتی کی واردات کے ہی روز گاؤں میں آتا)،سب انسپکٹر،مسجد کا امام،گردوارے کا گورو میت سنگھ،محمد اقبال سنگھ(جو کہ ایک پارٹی کا ورکر، پڑھا لکھا آدمی ہے اور اخلاقیات وغیرہ کے پرچار کا داعی ہے،اسکے لئے مذہب کی قید کوئی اہمیت نہیں رکھتی)۔نوراں جو کہ امام کی بیٹی اور جگا سنگھ کی گرل فرینڈ ہے اور ایک 16 سالہ طوائف اہم ہیں۔اقبال سنگھ اگرچہ ڈکیتی کے دوسرے روز گاؤں میں آتا ہے لیکن خاص حکم کے تحت جگا سنگھ اور محمد اقبال سنگھ کو رام لال کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
مانو مجرا جو کہ اس لحاظ سے کافی اہم گاؤں ہے کہ یہاں ریلوے اسٹیشن ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے اپنی زندگی کو ٹرینوں کی آمد سے سینکرونائز کر رکھا ہے۔ لیکن ایک دن ایک گھوشٹ ٹرین آتی ہے پاکستان کی طرف سے۔ جومکمل طور پر خون سے لت پت اور لاشوں سے اٹی ہوتی ہے۔ اس سے گاؤں کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف جذبات ابھرنے لگتے ہیں۔ اس ٹرین کی کو جلا دیا جاتا ہے۔ ابھی لوگ اس ٹرین کے خیالات سے باہر نہیں نکل پاتے کہ دوسری ایسی ہی ٹرین آ جاتی ہے۔ ابکی بار تمام نعشوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔لیکن اس کے بعد نفرت کے جذبات بڑنے لگتے ہیں۔
ناول کی ایک اور بات یہ ہے کہ اس میں دونوں طرف سے فسادات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی طرف تھوڑا جھکاؤ زیادہ رہا ہے لیکن سکھوں کے رویوں پر بھی کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے اس پہلو کا نتیجہ یہ ہے کہ مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ سچا سودا،شیخوپورہ میں بھی سکھوں کا قتل کیا گیا تھا۔ حالانکہ میں نے جب سے ہوش سنبھالی اسی علاقے میں رہا ہوں۔ سچا سودا کے گردوارے کی خستہ حالی  کو خود دیکھا ہے۔(اب گردوارا بہت بہتر حالت میں ہے۔اور یہاں کے سکھ گرو بہت نفیس آدمی ہے۔) لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا اور نا ہی معلوم تھا کہ ہمارے بڑوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے تھے۔ایسے ہی واقعات راولپنڈی،گوجرانوالہ،ملتان،خیبر پختوانخوہ اور دیگر علاقوں میں بھی ہوئے۔لیکن موجودہ طور کی اوسط عمر کا بڑا حصہ گزارنے کے باجود ان باتوں اور واقعات سے نابلد رہا ہوں۔یوں یہ کتاب تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھلاتی ہے جسکو دیکھنے کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔
دوسری ٹرین کی آمد کے بعد حکم چند گاؤں کو مسلمانوں سے خالی کروا کے انہیں قریبی  رفیوجی کیمپ بھجوا دیتا ہے۔جبکہ گاؤں میں سکھوں کی ایک ٹکڑی آتی ہے جو کہ سخت شدت پسند ہوتی جنکا مقصد چند روز بعد پاکستان جانے والی ایک ٹرین کو ایک ہی مسخ کرنا ہے۔ گاؤں کے وہ لوگ جو مسلمانوں کے خروج کے وقت کافی آبدیدہ اور غمگین تھے وہ بھی متشدد سکھوں کی باتوں میں آ کر اس منصوبے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف حکم چند اس منصوبے سے واقف ہے وہ اس کو بچانا بھی چاہتا جبکہ ٹرینوں کی آمد نے اسکے خیالات کو منتشر کر رکھا بہرکیف وہ اسی حالت میں جگا سنگھ اور اقبال کو ٹرین کو جلانے والے دن رہائی دے دیتا ہے۔
کتاب کا ایک اور روشن پہلو واقعات کی ترتیب اور انکا بیان  اور اختتام ہے۔ کتاب میں سبتمبر کے دنوں کو دکھلایا گیا ہے۔ مون سون  کے ان دنوں میں حبس، بارش ، گرمی کو بیحد نفیس طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔واقعات کو جس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے اور جسطرح انکی ترتیب رکھی گئی ہے۔اور پھر ان سب واقعات کو آپس میں نتھی کر کے اختتام کرنا  اپنی مثال آپ ہیں۔(جبکہ میں ایک صفحے کے بلاگ میں 7،8 پہروں کو ٹھیک سے ترتیب دینے سے قاصر چہ جائیکہ بیان اور اختتام کا ذکر کرنا۔) قصہ مختصر کہ یہ کتاب پہلی ہی فرصت میں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

کتاب سے چند اقتباسات:

  1. آزادی پڑھے لکھے لوگوں کے لئے ہے،جو اسکے لئے لڑے-ہم انگریزوں کے غلام تھے،اب پڑھے لکھے انڈین یا پاکستانیوں کی غلامی کرینگے- 
  2. ایک ملک میں جہاں ذات کی بنیاد پر فرق کو صدیوں سے قبول کر لیا ہو،وہاں عدم مساوات پیدائشی ذہنی تصور بن جاتا ہے-
  3. اخلاقی قدریں امیروں کی ہوتی ہیں- غرباء انکے متحمل نہیں ہو سکتے،لیکن انکے پاس مذہب ہوتا ہے-  
  4. آپکا اصول یہ ہونا چاہئے، دیکھو سب اور کچھ بھی ناں کہو- 
  5. دنیا بہت تیزی سے بدلتی یے-اگر آپ اسکے ساتھ چلنا چاہتے ہو تو آپ خود کو کسی ایک نکتہ نظر اور شخص سے نتھی نہیں کر سکتے-  
  6. اگر آپ کسی چیز کے متعلق رائے دینے کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہو،تب بھی خاموش رہنا سیکھو-


1 تبصرے:

Click here for تبصرے
22 جولائی، 2016 کو 2:31 AM ×

زبردست جناب۔
خاکسار نے بھی اس کتاب کو فہرست میں شامل کر لیا ہے۔

Selamat آوارہ فکر dapat PERTAMAX...! Silahkan antri di pom terdekat heheheh...
Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔