مصباح الحق سے پہلے اور بعد کا پاکستان!!!

کل کا میچ دیکھ کر میری آنکھیں کھل گئیں، کپتان اظہر علی کو بیٹھا(انجری تو بہانہ لگتا ورنہ یہ پلان کا حصہ تھا) کر سرفراز احمد کو کپتانی سونپی گئی۔سرفراز احمد نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اگرچہ شروع میں زمبابوین اوپنر نے اچھی پارٹنرشپ لگائی لیکن پھر سرفراز نے بلال کو متعارف کروایا جی وہی بلال جو ڈیبیو میں کوئی بھی وکٹ نہ لے سکا پانچ وکٹیں لے گیا،ایسا کیوں تھا چونکہ کپتان نے انکو وہ حوصلہ دیا جو اظہر نے نہ دیا تھا اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ ساتھ وسیم کو اٹیک میں لایا گیا جی وہی عماد وسیم جسکو دوسرے ون ڈے میں آرام دیا گیا تھا انہوں نے شاندار واپسی کی اور تین کھلاڑی آؤٹ کئے۔ پلان کے عین مطابق پاکستان نے جلدی جلدی زمبابوین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دیکھانی جاری رکھی،یکے بعد دیگرے زمبابوے کھلاڑیوں کی وکٹیں گرتی گئی کسی بھی بلے باز کے قدم پاکستان باؤلرز نے  وکٹ پر نا جمنے دیے اور پلان کے عین مطابق زمبابوین ٹیم کو 162 کے مجموعی اسکور پر آؤٹ کرلیا۔
اب بیٹنگ کی باری آئی تو وہاں بھی ایک خوب پلاننگ نظر آئی ابتدائی بلے بازوں نے نئی گیند کو دیکھ بھال کی سی آف کیا اگرچہ بلال ایک دفعہ سلپ میں کیچ دینے کی کوشش میں کامیاب رہے لیکن فیلڈر ناکام لیکن اسکے باوجود انہوں نے بہترین کھیلا ساتھ احمد شہزاد نے سینئیر کے طور پر اسکی خوب حوصلہ افزائی کی چونکہ ٹارگٹ بڑا نہ تھا اسلئے جم کر کھیلا گیا سیدھے لفظوں میں کہیں تو "واری لی گئی" بلال اور آصف کے بعد اگرچہ حفیظ مختصر اننگ کھیل سکے لیکن اسد اور شعیب نے پھر باری لینے کی ٹرم کو آگے بڑھایا  اور انتہائی پر اعتماد  طریقے سے کھیلتے رہے یوں پاکستان نے چونتیسویں  اوور میں یہ ہدف باآسانی عبور کر لیا۔
میں تو یہ عمدہ پرفارمنس اور میچ پلاننگ دیکھ کر بلکل ہکا بکا اور ششدر رہ گیا کہ آیا جب ہم ایسا بہترین کھیل سکتے ہیں تو پھر اظہر کی کپتانی میں 6 ماہ ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے شدید ملال ہوا اس بات کا پاکستان نے تاریخ کے قیمتی 6 ماہ اظہر کی کپتانی نے گنوا دیے یونہی ہم بنگلہ دیش سے وائٹ وائش ہوئے، بمشکل چمپئینز ٹرافی کھیلنے کے قابل ہوئے، زمبابوے کے پہلے دو میچز میں بیٹنگ  پرفارمنس پتلی رہی ایک میچ ہار بھی گئے۔ اسکا مجھے ایک ہی سبب نظر آتا اظہر کا عامیانہ رویہ چونکہ وہ مار دھاڑ کے قائل نہ تھے اس کا فرق ساری ٹیم پر پڑتا تھا جو انکے ٹیم سے الگ ہونے سے ہٹ گیا اور ٹیم ایک دم شاندار روپ میں نظر آئی یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ ٹیم ناقابل شکست ہے اسکو ہرانا تقریبا ناممکن ہے۔
تمہید تھوڑی لمبی ہو گئی اور آپ سوچ رہے ہونگے موصوف کے سر پر یہ تو چوٹ لگ گئی یا پھر کسی فاؤنٹین ہاؤس سے بھاگ کر سیدھا یہی لکھنے آ گئے ہیں۔ جو ایک میچ کی پرفارمنس پر اظہر علی کو یوں تنقید کا نشانہ بنا رہے اور کہہ رہے انکی کپتانی میں پاکستانی کرکٹ نے چھ ماہ گنوا دیے۔تو جی مجھے قریب قریب کچھ ایسا ہی محسوس ہوا اس آرٹیکل کو پڑھ کر جہاں مصباح الحق کے چار سالہ کیرئیر (کپتانی) کو اظہر علی کی کپتانی میں کھیلے گئے 9 میچز سے موازنہ  کیا گیا ہے۔ ایک لمحہ کو ٹھہریہ ،اگر آپ  نے آرٹیکل نہیں پڑھا تو پڑھئیے اور پھر دیکھیں کیا میں غلط اندازہ کر رہا؟ کیا یوں نہیں لگتا کہ وہ آرٹیکل مصباح کی مخاصمت میں لکھا گیا؟؟ میں صاحب تحریر کے انداز، اسٹیٹس اور تحریر کا قائل ہوں بہت ہی خوب لکھا اور نہایت عمدہ طریقے سے اسٹیٹس کے ذریعے اسکو بیک کیا لیکن ساری تحریر میں ایک بات نمایاں تھی کہ تحریر اینٹی مصباح رہی جس نے تحریر کا کافی حد تک مزہ کرکرا کر دیا۔ خیر واپس اِس تحریر پر آتے ہیں تو اٗس وقت پاکستان نے اظہر کی قیادت میں 9 میچز کھیلے تھے جن کا تقابلہ مصباح کے چار سال کے عرصے پر محیط دور سے کیا گیا تھا۔ جو کہ بذات خود ایک معیوب سی بات ہے کہ ایک اتنے لمبے عرصے کو محض 9 میچز سے موازنہ کرنا اور ایک کو دوسرے پر سبقت دینا چہ معنی دارد۔
آرٹیکل میں کہا گیا کہ پاکستان نے مصباح کی قیادت میں چار سال ضیائع کردیے تو صاحب پاکستان نے جنوبی افریقہ کو جنوبی افریقہ میں پہلی مرتبہ سیریز میں شکست دی انڈیا کو انڈیا میں شکست سے دوچار کیا۔اور بارہ سال بعد ایشین چمپئین کا تاج پاکستان کے سر سجا۔چلیں مان لیتے یہ بھی کوئی قابل ذکر پرفارمنس نہیں چونکہ یو اے ای میں ہمیں انگلینڈ،آسٹریلیا،جنوبی افریقہ وغیرہ سے شکست بھی ہوئی۔تو صاحب اگر اِن شکستوں کا ذمہ دار مصباح ہے تو اُن فتوحات کا کریڈٹ بھی مصباح کو دیں۔ اسکے علاوہ یہ کہا گیا کہ مصباح کی قیادت میں پاکستان کی ٹیم تین سو کا ہدف بمشکل تین چار دفعہ حاصل کر سکی اور مجموعی طور پر پاکستان کا اسکور اوسط دوسری ٹیمز کی نسبت کم رہی،بلکل درست صاحب لیکن یہ بھی دیکھیں ان میچز میں دوسری ٹیموں کی بیٹنگ اوسط کیا رہی اگر پاکستانی ٹیم 230،250 رنز کا ہدف دیتی تو مخالف ٹیم کے لئے یہ ٹارگٹ بھی انتہائی مشکل ہو جاتا اور متعدد دفعہ پاکستان نے اس ٹوٹل کو بھی کامیابی سے دفاع کیا وہ بھی آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، انڈیا جیسی ٹیمز کیخلاف اور ایسے قوانین کیساتھ جہاں تین سو زائد زنز کا ہدف بھی زیادہ نظر نہ آتا تھا چلیں اسمیں بھی مصباح کا کوئی کمال نہیں پاکستان کی باؤلنگ جو ہمیشہ سے شاندار رہی ہے انکی قابلیت تھی تو پھر بیٹنگ کے فلاپ ہونے کی ذمہ داری  اکیلے مصباح پر کیوں؟؟ ماضی میں جب پاکستان کے پاس سعید انور، انضمام، محمد یوسف، عبدالرزاق جیسے بلے باز بھی ہوتے تھے تو پاکستانی بیٹنگ میں کوئی قابل قدر کارگرگی پیش کی نہ ہی پاکستانی ٹیم نے مجموعی حیثیت سے کوئی بہترین کارگردگی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی ٹیم کی رینکنگ ہمیشہ سے مڈ ٹیبل رہی اور مصباح کے دور میں بھی چوتھی سے چھٹی پوزیشن کے درمیان ہی جوجتی رہی لیکن 9ویں پوزیشن پر اظہر کے دور میں ہی پہنچے تھے۔نیز برآں یہ دیکھیں مصباح نے زیادہ میچز یو اے ای میں کھیلے ہیں جہاں کی کنڈیشن ایک روزہ کرکٹ کی بیٹنگ کے لئے زیادہ موافقت نہیں رکھتیں یہی وجہ ہے پاکستان کیا کوئی بھی ٹیم وہاں شازو ناذر ہی تین سو کا آکٹر عبور کرتی ہے۔ آسٹریلیا، جنوبی افریقہ وغیرہ کوئی تو چھوڑئیے سری لنکا جو اسپن وکٹس کی بہترین ٹیم سمجھی جاتی اور سنگا ، مہیلا جو ایسی کنڈیشنز میں کھیلنے کے لئے سب سے بہترین بلے باز سمجھے جاتے تھے وہ بھی ان کنڈیشنز میں خوب پھنس کر کھیلتے رہے، انکی اوسط بھی تیس کے قریب اور سٹرائیک ریٹ  قریب 70 کے لگ بھگ ہے۔ تو ایسے میں اکیلے مصباح پر یہ الزام آئد کرنا کہ سلو کھیلے مناسب نہیں دکھتا۔ اب دیکھیں پاکستان نے مصباح کی کپتانی میں پاکستان میں کتنے میچز کھیلے، آپ دیکھیں انگلینڈ ہو آسٹریلیا یا انڈیا ہر ٹیم اپنے ہوم کراؤڈ اور گھریلو کنڈیشنز میں یکسر مختلف نظر آتی، اظہر اور پاکستان کی قسمت کے انکے دور میں کرکٹ واپسی آئی اور ان میچز میں پاکستان کی کارگردگی بھی مختلف نظر آئی۔ 
اگر یہ کہا جائے کہ آسٹریلیا میں ورلڈکپ ہمارا تھا اور مصباح کی وجہ سے ہم کوارٹر فائنل ہارے یا مجموعی کارگردگی قابل ذکر نہ رہی تو جی آپ محمد یوسف کی کپتانی اور انضمام میں کپتانی یا اس سے قبل وسیم/وقار وغیرہ کی کپتانی میں آسٹریلین ٹورز کی تفصیلات نکال لیں تو حالات کچھ شاندار نہ تھے انضی یہ ٹرائی سیریز تھی جس میں پاکستان نے کل آٹھ میچز کھیلے 5 ہارے تین جیتے جن میں سے ایک آسٹریلیا کیخلاف جبکہ دو ویسٹ انڈیز کیخلاف۔ ویسٹ انڈیز کیخلاف کل تین میں سے دو میچز جیتے اور آسٹریلیا کہ خلاف 5 میں 1 جن میں بیسٹ آف تھری فائنل کے دو میچز بھی شامل ہیں۔ ، محمد یوسف 5-0 (اسی سیریز کے پانچویں میچ خانزادہ شاہد آفریدی نے گیند کو سیب سمجھ ،کر چکھنے کی کوشش کی تھی) اور فیلڈنگ بھی مصباح ہی کی بدولت خراب رہی ہوگی ویسے مجھے سمجھ نہین آتی اگر بلے باز میں رنگ پکڑ جاتے تھے مصباح کا تو فیلڈنگ میں کیوں نہ پکڑا۔ پورے ورلڈ کپ کو چھوڑیں انڈیا کیخلاف میچز (2011،2015 ورلڈ کپ) میں شکست کا ذمہ دار بھی مصباح ہی تھا، اگر ایسا ہے تو 03،99،96،92 میں انڈیا سے ہارنے کی وجہ بھی مصباح ہی ہوگا۔چلیں ان باتوں کو بھی رہنے دیں وسیم اور انضمام جیسی مضبوط ٹیم مصباح کو 4 سالوں میں ایک دفعہ بھی نہ مل سکی لیکن انکے دور میں جو کارنامہ ہائے نمایاں انجام پائے ان پر کچھ روشنی ڈال دی جائے اور پاکستان 2003 اور 07 کے ورلڈ کپ میں پہلے راؤنڈ کھیل کر ہی وطن واپس کیوں لوٹ آیا؟؟۔
اسکے علاوہ یہ کہا گیا کہ شعیب ملک،عمر اکمل،محمد حفیظ بھی مصباح کے پریشر کی وجہ سے ٹھیک  نہ کھیل سکے جسکی وجہ سے انکا کیرئیر متاثر ہوا خوب رہی جی لیکن یہ دیکھیں کہ شعیب ملک کی پرفارمنس کیسی رہی اور کتنے انکو چانسز دیے گئے تو  شعیب نے اب جو میچز کھیلیں ہیں وہ ایشین کنڈیشنز میں بنگلہ، زمبابوے اور سری لنکا کیخلاف کھیلے ہیں۔ تو جی ملک صاب شروع سے ہی اسپن اور میڈیم باؤلنگ کے دلدادہ ہیں اور اتفاقا باؤلنگ اور کنڈیشن دونوں ہی انکے موافق رہیں، ویسے بھی لنکا سے ملک کی محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں لنکا میں شعیب نے مرلی ،واس اور ہیراتھ جیسے باؤلرز کے ہوتے ہوئے بھی دو دفعہ نہیات شاندار اننگ کھیلی اور دونوں دفعہ ٹیسٹ میچ کو بچا کر لے گئے۔ جبکہ مصباح کے دور میں انکو چانس افریقہ، انگلینڈ کیخلاف ملا جہاں وہ کامیاب نہ ہوئے مزید برآں اگر ان پر محض مصباح کی وجہ سے یہ حالت ہوئی تو غالبا ماضی میں انکو کپتانی سے ہٹایا بھی مصباح کی ہی وجہ سے گیا ہوگا۔ اسی طرح محمد حفیظ کی بیٹنگ لنکا/زمبابوے کے کیخلاف مصباح دور میں بھی انتہائی شاندار رہتی تھی جبکہ افریقہ کیخلاف وہ ایک ہی باؤلر کے ہاتھوں مسلسل سترہ مرتبہ آؤٹ ہوتے ہیں یقینا مصباح ہی سبب رہا ہوگا اسکا، جہاں تک بات رہی عمر اکمل کی تو جناب لنکا کیخلاف ڈیبیو ون ڈے میں سینچری اور کیوی ٹیم کے خلاف ڈیبیو ٹیسٹ میں سینچری کے علاوہ انکی کارگردگی ہمیشہ انکی صلاحیتیوں کی نسبت بہت درجہ پست رہی ہے اور اسکی وجہ بہت حد تک وہ خود بھی ہیں یہاں  یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ انکو مصباح نے بہت نیچے بیٹنگ دی لیکن پھر بھی جس جلد بازی اور جس طرح کی شاٹس لگا کر آؤٹ ہوتے تھے اسکا قصوار سوائے انکے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ پاکستان کا سٹرائک ریٹ مصباح کی کپتانی میں دوسری ٹیمز سے بہت کم رہا جسکی وجہ مصباح کی سست بیٹنگ تو جی مصباح بلے بازوں کو  یہ تو کہتا ہوگا کہ آرام سے کھیلنا سست کھیلنا لیکن یہ تو نہیں کہتا تھا کہ 1-4 آؤٹ ہو جاتا یا آئے روز بیس پر 3 آؤٹ 30 پر چار آؤٹ ایسے میں کپتان نے کئی دفعہ پاکستانی بیٹنگ کو سنبھالا دیا مکمل ذلالت سے بچایا۔نیز مصباح کی بیٹنگ چلیں سست ہی سہی لیکن اسقدر کنسسٹنٹ کیوں رہی دوسروں کی کیوں نہیں؟ اور آیا کیلنڈر ائیر میں سب سے زیادہ ففٹیز بنانے کا ریکارڈ بھی انہوں نے قائم کیا نیز انکی ایوریج بھی شاندار رہی۔ جبکہ دوسرے اینڈ پر بلے باز یوں آؤٹ ہوتے تھے جیسے سگریٹ جلتی چھوڑ آئے ہوں یا چائے ٹھنڈی ہو رہی ہو انکی۔ ویسے بھی پاکستان بیٹنگ کا یکدم کولیپس کرجانا کوئی آج کی بات نہیں۔ایسا ہوتا آیا اور آپ نے زمبابوے کی دوران سیریز میں بھی اسکا مظاہرہ دیکھا وہی ٹیم کو زمبابوے کے ہی خلاف ہوم گراؤنڈ میں مختلف تھی اور اسی اٹیک کے خلاف انکے گراؤنڈ میں مختلف تھی۔ اب ایسا کیوں ہوا؟؟ اب ٹیم نے تین سو کا آکڑا کیوں نہ عبور کیا؟؟ پھر پاکستان کے چیس کرنے کا دیکھا جائے تو یہ بھی کوئی آجکی بات نہیں ہم ہمیشہ سے اس شعبے میں کمزور ہیں اور زمبابوے کیخلاف ہی میچ ہار گئے اب اسکی وجہ جو کوئی بھی رہی ہو لیکن ہماری پرفارمنس انتہائی ناقص رہی اس میچ،ماضی میں بھی پاکستانی ٹیم چیس کرتے وقت اکثر ایسے بلنڈر کرتی ہی آئی ہے یہ کوئی انوکھی یا نہیں بات نہیں۔
اس پر یہ بھی دیکھنا اہم ہے کہ مصباح کی کپتانی میں قوانین الگ تھے بیٹنگ پاورپلے میں پاکستانی بلے باز اکثر جلد بازی کی وجہ سے آؤٹ ہو جاتے اور پہلے سے ہی ڈانوں ڈول اننگ جسکو مصباح نے اپنے مخصوص سست انداز میں سنبھالا دیا ہوتا تھا ایک دفعہ پھر سے ڈگمگا جاتی تھی اور پاکستان بڑا اسکور بنابے سے قاصر رہتا تھا۔ لیکن یہ دیکھیں اس قانون میں جب تین سو زائد رنز کا ٹارگٹ بھی باآسانی حاصل ہوجاتا تھا پاکستان نے متعدد موقعوں پر 250 یا 200 سے زائد ٹارگٹ کا بھی کامیابی سے دفاع کیا جو ورلڈ کپ میں بھی دیکھا گیا۔ اور وہی جنوبی افریقن ٹیم جو باآسانی 400 رنز بنا جاتی تھی 232 رنز کا ٹارگٹ کے تعاقب میں لڑکھڑا گئی۔ یہ بھی کہا جاتا کہ مصباح ایک ڈیفنسیو مائنڈ سیٹ کے کپتان تھے تو میں کہوں گا آپ ورلڈکپ میچز کی فوٹیج کو دوبارہ دیکھیں چھوٹے ٹارگٹ ہونے کے باوجود مصباح نے اٹیکنگ فیلڈنگ کو برقرار رکھا جنوبی افریقہ کے ہی میچ میں جب آملہ خوب مار رہے تھے اور رن ریٹ سات کے قریب تھا مصباح نے پھر بھی سلپ برقرار رکھی اور اٹیک جاری رکھا اسکے علاوہ مصباح نے اپنی باؤلنگ آپشنز کو بخوبی تبدیل کیا اور اٹیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا مظاہرہ کینگروز کیخلاف بھی کیا گیا لیکن شومئی قسمت کہ ایک کیچ ڈراپ اور کچھ قسمت کا ساتھ نہ دینے کے سبب ہمیں اس میچ میں شکست ہوگئی۔ پھر آپ بیٹنگ یا لازمی پاورپلے اور آخری اوورز میں بننے والے کی اوسط دیکھیں تو وہ بھی دوسری ٹیم سے کئی بہتر ہے۔ مانا کہ یہ باؤلرز کی بہترین کارگردگی کا باعث ہے لیکن پھر بھی کچھ تو مصباح کی کپتانی بھی سبب رہی ہوگی۔
بات لمبی ہوتی چلی جا رہی اسکو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ایک انگریز کمنٹیٹر کے بقول:
"Pakistan most consistent team in  inconsistency "
پاکستان کی ٹیم کبھی بھی مستقل مزاج نہیں رہی ایسے میں مجھے انضی بھائی کی ایک بات یاد آ رہی کہ 2007 کی ہار کیبعد جب ایک انٹرویو میں کسی سے انہوں نے پوچھا کہ پاکستان آسٹریلیا کی مانند کیوں نہیں کھیلتا اور یوں مستقل میچز اور ورلڈکپ میں کیوں نہیں جیتتا تو انضی بھائی نے خوبصورت جواب دیا کہ "آپ مجھے ایک گلکرسٹ، ایک پونٹنگ، ایک میگرا ، ایک وارن دے دیں پھر مجھ سے جتنے مرضی ورلڈکپ جتوا لیں"۔ اسکے علاوہ بھی ہمارے قومی مزاج کچھ ایسا ہی ہے ہم ایک دن ایک شخص کو ہیرو اور اگلے دن زیرو قرار دینے میں اپنی مثال آپ ہیں حال میں بلال آصف اسکی مثال ہیں۔ اسکے علاوہ قومی ہیروز پہلے زیرو قرار دینا بھی ہمارا آج کا وطیرہ نہیں ہے۔ تو مصاحبو اور عزیز ہموطنو ایک دن/میچ/سیریز پر ہیرو،زیرو کا فیصلہ کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ چونکہ ہم انتہائی جذباتی قوم واقع ہوئے ہیں تو ہمیں جذبات کو الگ رکھ کر باتوں اور حقائق کو پرکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے پھر ہی نتیجہ پر  بہتر انداز میں پہنچا جا سکتا ہے۔  اب اس بلاگ کے بعد یہ کہنا کہ میں ٹھیک اور وہ بھائی غلط یا وہ ٹھیک یا میں غلط بھی کچھ مناسب نہ ہوگا انہوں نے وہ لکھا جو انکو مناسب لگا اور انہوں نے محسوس کیا میں نے وہ لکھا جو میرا نکتہ نظر تھا۔ تو اس بات کا بہتر فیصلہ اب آپ لوگوں پر منحصر ہے آپ دونوں کو پڑھ کر ہی اس بات کا تعین کر سکتے چونکہ نہ تو مکمل درست بات میں نے کہی ہوگی اور نہ ہی انہوں چونکہ انہوں نے بھی ایک مخصوص چشمے سے لکھا اور میں نے بھی ایک خاص نکتہ نظر۔تو آپ دونوں کو پڑھیں غور کریں۔ جیسا کہ انہوں نے آرٹیکل جلدی میں لکھا ایسے ہی شائد میں بھی وقت سے پہلے ہی یہ لکھ رہا مجھے یو اے ای سیریز تک کا انتظار کرنا چاہئیے تھا آیا اس سیریز میں پاکستان کی کارگردگی کیسی رہتی ہے تو مجھے قوی امید کہ شائد پاکستان وہ سیریز جیت جائے لیکن ان کنڈیشن میں یہ خیال کرنا کہ پاکستان بیٹنگ اچھا کھیلے گی یا آئے روز تین سو زائد رنز بورڈ پر جما دے گی یا اڑھائی سو پلس کا ٹارگٹ یونہی باآسانی عبور کر لے گی زمبابوے کیخلاف ایک سو باسٹھ رنز بنائے تو ایسا ہونا یکسر ناممکن سا ہے۔لیکن دعا ہے کہ ہم اس سیریز اور آئندہ سیریز میں کامیابی حاصل کریں اور پاکستان کی ٹیم ایک مستقل مزاج ٹیم بنے لیکن اسکے کافی ساری باتوں اور چیزوں کی ضرورت ہے جن پر سختی سے عمل پیرا ہو کر ہی خوش آئند نتائج حاصل کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔شکریہ۔
 
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔