مشن کاکول!!!

آخر کار سمر آ ہی گیا۔جنگ کا طبل بچ چکا تھا۔لشکر کی تیاری کے لئے کیمپ کاکول میں سجایا گیا۔ جہاں  لشکر کی مشق و مہارت پر ہلکی پھلکی جبکہ  خصوصی طور پر فتح کا جشن منانے کا طریقہ سکھایا گیا۔معرکہ سخت تھا لشکر نیا جبکہ سپہ سالار عمر رسیدہ، امیدیں بڑی، امنگیں جوان اور حوصلے بُلند تھے۔
چھوٹی موٹی چوکیوں سے مڈبھیڑ کے بعد پہلا بڑا معرکہ "لارڈز قلعہ" تھا۔دریائے ٹیمز کے جنوبی جانب واقعہ یہ قلعہ تاریخی اعتبار سے سب سے مشہور اور اہم قلعہ مانا جاتا ہے۔ موسم سازگار اور حالات مناسب دیکھ کر معمر سپہ سالار  حق کے چراغ نے پہلے میدان میں اترنے کا فیصلہ لیا۔میسرہ و قلب  نے آگے بڑھ کر آغاز کیا، آغاز اچھا تھا لیکن زیادہ دیر تک ٹک نہ سکے،میمنہ بھی اسکے پیچھے چلنے کو ہی تھی کہ معمر سپہ سالار ڈٹ گیا۔ سپہ سالار کو دیکھ کر"شیر" نامی ایک اہم مہرے نے بھی قدم جما دیے۔ مہرے کے گرنے کے بعد بھی سپہ سالار کھڑا رہا اور سو دوڑوں کا اہم آکڑا حاصل کر لیا۔ یوں سپہ سالار کی کاوشوں سے پہلا دن لشکر کے نام رہا۔ دوسرے دن فرنگیوں نے تازہ دم گھوڑوں سے آخری سپاہیوں کو جلد ہی زیر کر لیا۔ اب فرنگی لشکر میدان میں اترا تو سپہ سالار نے تیر اندوزوں کو آگے بڑھنے کا حکم۔ تیر اندازوں نے جلد ہی اگلی قطار کو سر کر لیا۔ اسکے بعد سپہ سالار نے اہم مہرہ چلا جس نے اپنی تلوار کو ایسے گھمایا کہ کوئی بھی فرنگی اپنی ڈھال کو اسکے وار سے نہ بچا سکا۔ یوں سارے فرنگی جلد ہی خیمہ میں پہنچ گئے۔ دوسرا دن بھی لشکر کے نام رہا۔ تیسرے دن پھر لشکر نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دوڑوں کی بڑی چوٹی پر جا لنگر انداز ہوئے۔ فرنگیوں نے اس چوٹی پر چڑھنے کی کوشش کی تو لشکر نے "اونچے" ہدف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی بھی فرنگی کے پاؤں نہ جمنے دیے  اور لشکر نے "لارڈز قلعہ" فتح کر لیا۔ قلعہ پر جھنڈا گاڑنے کے بعد لشکر نے ڈنڈ پیلے جو فرنگی سپہ سالار کو ناگوار گزرے۔ اسکو لے کر کافی لے دے ہوئی لیکن معاملہ آگے بڑھ گیا۔
اب کی بار پڑاؤ ایجبسٹن میں تھا۔ یہ دفاعی لحاظ سے فرنگیوں کا اہم قلعہ تھا۔ آخری  گیارہ معرکوں میں مقامی لشکر ایک مرتبہ بھی شکست سے دوچار نہ ہوا تھا۔فرنگیوں نے اب کی بار اپنے تیر اندزوں میں ایک اہم نام شامل کیا جو تیر اندزوں میں بڑا نام ہے۔ آخر کار مقابلہ شروع ہوا۔ فرنگی کپتان اور "جڑ" نامی بہترین جنگجو نے اس دفعہ مہمان تیر اندزوں اور تلوار باز کسی کی ایک نہ چلنے دی اور دوڑوں کے انبار لگا دیے۔  لشکر نے اپنی باری  کا آغاز کیا تو میمنہ ، میسرہ یا قلب کوئی بھی ٹھہر نہ سکا سپہ سالار نے ہزیمت دکھائی لیکن وہ بھی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ پورا لشکر ملکر بھی "جڑ" اکیلے کی ہی دوڑوں کو سر نہ سکا۔ فرنگیوں نے دوبارہ میدان میں اتر کر تیزی سے دوڑیں بنائی جسکے بعد فرنگی کپتان نے خود ہی اپنی باری ختم کرنے کا فیصلہ لیا۔ لشکر دوسری دفعہ میدان میں اترا تو ہدف دیکھ کر  اسکے پاؤں لڑکھڑا گئے۔جس  سے فرنگیوں کے حوصلے مزید بُلند ہو گئے اور انہون نے جلد ہی اس معرکے کو اپنے نام کر لیا۔
لشکر نے تیسرے پڑاؤ سے قبل ایک چوکی کو سر کیا۔ اور جس انداز سے اس چوکی کو سر کیا اس نے لشکر میں ایک نئی روح پھونک دی۔ چوکی سر کرنے کے بعد لشکر نے اولڈ ٹریفورڈ میں خیمے گاڑ دیے۔ یہ بھی ایک مضبوط قلعہ تھا۔ اس کی مضبوطی کا اندازہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے بطور خاص اس سے پہلے ایک چوکی کھڑی کی گئی ہے۔ لشکر نے اب میسرہ میں اک نیا جنگجو شامل کیا اور ساتھ ہی تیر اندزوں کی لائن میں بھی ردوبدل کیا۔ سپہ سپہ سالار نے ابکی بار فرنگیوں کو پہلے اترنے کی دعوت دی۔ فرنگی نئے تیر انداز کے حملے کی تاب نہ لا سکے اور میسرہ جلد ہی ہمت ہار گیا لیکن میمنہ نے اچھی لڑائی لڑی اور مجموعی طور پر ایک معقول ہدف حاصل کر لیا۔ لشکر کے باری آئی تو میسرہ  میں شامل نئے جنگجو اور اسکے بعد آنے والے قلب کے اہم جنگجو نے عمدہ کھیلا۔ سپہ سالار  نے پھر سے میمنہ میں اہم کردار ادا کیا اور لشکر نے فرنگیوں سے بڑھ کر دوڑیں بنا لیں۔ فرنگی دوبارہ میدان میں اترے۔ لیکن اب کی بار اک نئے جذبے سے لڑے اور چوتھے روز تک ایک اہم مقام کو جا لیا۔ پانچواں دن مہم اور معرکہ کا اہم ترین دن تھا۔ آج لشکر کا اصل امتحان تھا۔ اگر آج لشکر کامیاب ہو گیا تو اس مہم میں اسکی فتح کے روشن امکانات تھے۔ فرنگی کپتان نے دن کے عمدہ آغاز کے بعد لشکر کو میدان میں اترنے کی جگہ دی۔ میسرہ کا اہم مہرہ لیکن اس مہم پر مسلسل ناکامی سے دوچار جنگجو پھر سے جلد ہی ہمت ہار بیٹھا۔ البتہ میسرہ میں شامل نئے خون نے پھر سے عمدہ کھیلا اور پہلے وقفے کو جا لیا۔ اس لمحے تک یوں محسوس ہو رہا تھا کہ لشکر باآسانی اس قلعہ پر بھی جھنڈا گاڑ دے گا لیکن فرنگی جب وقفے کے بعد واپس لوٹے تو انکے تیر اندازوں اور تلوار باز نے لشکر کے ہی داؤ پیچ ان پر آزمانے شروع کر دیے۔ تیر اندازوں نے تیروں کو اس انداز سے پھینکنا شروع کیا سے وہ بہت ہی تاخیر سے اپنی سمت بدلتے جسکو جنگجو سمجھ نہ پائے اور نہ ہی تلوار باز کے سامنے صحیح سے ڈھال  لا سکے۔ دن کے دوسرے وقفے تک میدان کا نقشہ بدل چکا تھا۔  لشکر کے جنگجو یوں خیموں میں لوٹے "جیسے انکی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہو"۔ تیسرے اور آخری دورانیہ میں میمنہ کی آخری جوڑی نے اچھی ہزیمت دکھائی لیکن وہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور یہ قلعہ بھی فرنگیوں  کے نام ہو گیا۔ اب فرنگی مہم میں ایک قدم آگے تھے۔
لشکر دوبارہ گھوم کر دریائے ٹیمز کے کنارے آ خیمہ گزین ہوا۔لیکن ابکی بار شمال میں پڑاؤ کیا۔ اس قلعے کو "اوول" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لشکر چاروں طرف سے دباؤ میں تھا۔سپہ سالار اور ایک دوسرے معمر جنگجو "ڈولفن" (یونس کا ترک زبان میں ڈولفن مطلب لیا جاتا) پر تنقید کے تیروں کی بوچھاڑ کی جا رہی تھی۔ سپہ سالار نے ان سب کا جواب روایتی مسکراہٹ سے دیا اور معرکے کی تیاری میں لگا رہا۔لشکر نے تیر اندازوں اور میسرہ میں دوبارہ تبدیلی کی۔ اب فرنگی سپہ سالار نے پہلے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔میسرہ نے عمدہ آغاز کیا لیکن لشکر کے تیر اندازوں نے جلد ہی میسرہ اور قلب کی کمر توڑ دی۔ میمنہ نے روایتی مزاحمت کو جاری رکھی اور اور دوڑوں کا اچھا مجموعہ بنا لیا۔ لشکر کی باری آئی تو میسرہ میں شامل نیا خون اب زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا جب قلب سے اوپر آنے والے ہنگامی حالات میں میمنہ سے آگے آ کر کھیلنے والے جنگجوؤں نے  بہتر کھیل پیش کیا انکے بعد "شیر" نامی جنگجو اور "ڈولفن" نے جھنڈا تھام لیا۔ اور اب جو تھاما تو ایسا تھاما کہ فرنگی تیر انداز اور تلواز باز ہکے بکے رہ گئے۔ شیر نے سو دوڑوں کا آکڑا عبور کیا ہی تھا کہ فرنگی تیر انداز کا نشانہ بن گیا۔ لیکن ڈولفن جو کہ مہم میں کافی غیر رسمی کارگردگی دکھا رہے اب مکمل موڈ میں تھے انہوں سو دوڑوں کے بعد مزید عمدہ کھیلنا شروع کر دیا اور دوڑوں کو دو گنا کر دیا۔ انکا ساتھ میمنہ نے خوب دیا۔ مجموعی طور پر لشکر نے فرنگیوں کو دوڑوں کے انبار تلے دبا دیا۔ فرنگیوں نے دوسری باری شروع کی تو تیرانداز نے میسرہ کے اہم مہرے اور فرنگی کپتان کو نشانہ بنایا اسکے بعد تلوار باز نے ایک مرتبہ پھر اپنی تلوار کا ہنر دکھایا اور فرنگی جنگجوؤں کی ایک نہ چلنے دی۔ میمنہ سے ایک مرتبہ پھر ریچھ(بئیر سٹو) اور محافظ(معین) جنگجو نے کچھ مزاحمت کی کوشش کی لیکن تلوار باز اور تیر اندازوں نے انہیں بھی گرا لیا۔ اب  پاکستانی لشکر کے سامنے دوڑوں کی چھوٹی سی چوٹی تھی۔جسکو میسرہ نے باآسانی سر کیا لیا۔ لشکر نے یوم آزادی کو فرنگیوں کوشکست سے دوچار کر دیا۔ اگرچہ مہم دو-دو سے برابر ہو چکی تھی لیکن بقول شخصے "یہ لشکر کی اخلاقی فتح تھی"۔ لشکر نے پرچم تھامے قلعے میں فاتحانہ مارچ کیا۔ اسکے بعد سپہ سالار جنکو مہم کا بہترین جنگجو بھی چنا گیا، نے فاتحانہ پیغام دیا۔جس میں کہا کہ انہوں نے آج یہ قلعہ فتح کر کے دنیا کا بہترین لشکر ہونے کا ثبوت دیا ہے اور وہ دنیا کے بہترین لشکر کہلوانے کے حقدار ہیں۔مزید برآں انہوں نے  ماضی کے درخشاں جنگجو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فتح انکے نام کی۔یوں فرنگستان کی یہ اہم مہم اختتام پذیر ہوئی۔
 
 

1 تبصرے:

Click here for تبصرے
17 اگست، 2016 کو 1:18 AM ×

زبردست جناب

Selamat آوارہ فکر dapat PERTAMAX...! Silahkan antri di pom terdekat heheheh...
Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔