سیاسی رومان سے ہیجان تک!!!!




سیاسی رومان سے ہیجان تک!!!!
سترکی دہائی کی بات ہے۔دو بھائی ہوا کرتے تھے۔بڑا بھائی زمینداری کرتا تھا جبکہ چھوٹا بھائی ڈاکٹر تھا۔ اچھی خاصی خوشگوار زندگی گزر رہی تھی، کہ ملکی سیاسی منظر نامہ بدل گیا۔ ملک دو نظریات میں بٹ گیا۔بھٹوازم اور ضیائی اسلام نے حالات کو یکسر بدل دیا۔ شومئی قسمت کہ نظریات کی یہ آگ  اس گھر میں بھی پہنچ گئی۔ ایک بھائی بھٹو کا حامی تھا تو دوسرا ضیاء کا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ نے  سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیا۔
بہرکیف وقت کے پہیے کے نصیب میں آرام ہے نہ اس کو ملناہے، اسکا کام چلتے رہنا ہے اور چلتا ہی رہتاہے۔تو جناب وقت آگے بڑھتا گیا۔ تاریخ،ہفتہ،مہینہ۔ سال بدلتے رہے یہاں تک کہ صدی بھی بدل گئی اور ہم پہنچ گئے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں۔ یہاں پھر آ کر سیاسی منظر نامے نے انگڑائی لی اور قوم دو نظریات میں بٹ گئی۔ ایک تبدیلی کا نعرہ تھا تو دوسرا تجربے کا۔ سیاست کی بساط پر اتار چڑھاؤ آتا رہا جس کا واضح اثر کارکنان پر دکھائی دینے لگا۔یہ دور اسی کی  دہائی سے مختلف تھا کہ اب سوشل میڈیا پر گفتگو ہوتی بلکہ گفتگو کے نام پر اپنے نظریے/بات کو دوسرے پر  زبردستی تھونپا جاتا تھا۔ بات اکثر تو تڑاک سے ہوتی ہوئی گالم گلوچ تک پہنچ جاتی اور نتیجےکے طور پر قریبی دوستیاں  اور تعلق داریاں خراب ہونے لگیں۔
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اوپر میں نے دو کہانیاں سنائی ہیں،تو ایسا ہرگز نہیں۔ پہلی کہانی کا بتاتا چلتا ہوں کہ اس گھر میں بھٹو اور ضیاء کی حمایت و مخالفت میں اس قدر مباحثے ہونے لگے کہ آخر کار  دونوں بھائیوں میں بٹوارا کرنا پڑا۔ احباب بتاتے ہیں کہ اسکے بعد چھوٹے بھائی نے اپنے حصے کا ترکہ بیچ کر امریکہ کی راہ لے لی جبکہ بڑا بھائی ادھر ہی رہا لیکن بقیہ زندگی دونوں نے ایک دوسری کی شکل نہیں دیکھی اور نہ ہی بات کی۔ستر اور اسی کی دہائی سے اس طرح کی کہانیاں آپ کو  بہت سی مل جائں  گی۔ جبکہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کی کہانی تو آپ کے سامنے ہی ہے اس پر کیا روشنی ڈالنی لیکن پھر بھی اگر من چاہے کھوجنے کا تو دھرنے کے ایام کے دوران  کاسوشل میڈیا کھول کر دیکھ لیں۔ باقی مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بقول شخصے "رومان اور ہیجان کا آپس میں گہرا ربط ہے، جہاں رومان ہو وہاں ہیجان جنم لے ہی لیتاہے"۔  یہ شخصا ہی کہتا ہے کہ ہیجان وہاں پیدا ہوتا  ہےجہاں دماغ کسی ایک بات کا تابع ہو کر اسی کو حتمی سمجھنا ہے۔اور رومان کی پہلی شرط ہی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات پر سر تسلیم خم کر لیا جائے، بغیر چوں چاں چنانچہ کیے  ۔ اب جب بات سیاست کی ہے تو رومان اور ہیجان کی کیفیت میں مزید شدت پسندی ہوتی ہے۔
آج کل سیاسی ماحول پھر  روایتی گرمی اور تناؤ کا شکار ہے۔ہر طرف سیاسی مباحثات کا دور چل رہا تو اکثر مباحثوں میں ماحول گرم بھی ہو جاتا  ہے اور بات کسی منطقی نتیجہ پر پہنچنے کی بجائے اس نہج پر  آ  جاتی ہے کہ دو  عزیز دوست/کزن/ہمسائے/رشتے دار مزید ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے اہل نہیں رہتے۔ سیاسی میلان رکھنا عبث ہے اور نہ ہی سیاست پر گفتگو کرنا۔ لیکن سیاسی بساط کی بنا پر تعلق داریاں خراب کرنا انتہائی فضول بات ہے۔ سیاست کی بساط پر مہرے بدلتے رہتے اور  اونچ نیچ  بھی ہوتی رہتی لیکن ان  سیاسی کھلاڑیوں کی چالوں پر جذباتی ہو کر  باہمی محبتیں اور دوستیاں کھونا انتہائی قبیح فعل ہے۔ جہاں تلک ہو سکے اس سے احتراز کریں۔  
سیاست میں انقلاب اور تبدیلی کافی رومانوی لفظ ہیں۔اور انسان ان کے سحر میں کھو ہی جاتا ہے۔ سیاسی رومان اور ہیجان سے بچنے  کا یوں تو کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ اصول نہیں ہے البتہ مطالعہ کسی حد تک اس سلسلے میں  معاون ضرور ثابت ہو سکتا۔ مطالعے  سے مختلف آراء کو سمجھنے اور ان پر غورو فکر کی عادت پیدا ہوتی ہے۔یوں تو سیاسی گفتگو سے احتراز ہی بہتر عمل ہے لیکن اگر لامحالہ  کرنی بھی پڑ جائے تو حتی الامکان کوشش کریں جب اس بیٹھک سے اٹھیں تو دوبارہ ایسی بیٹھک  کی گنجائش موجود ہو۔ یوں تو بات کو مزید بھی پھیلایا جا سکتا ہے لیکن بات کو فریڈرک نطشے کے اس قول سے سمیٹتا ہوں کہ "جو اپنے خیالات کو منجمند کرنے سے قاصر ہیں،مباحثہ کی حدت میں داخل ہونے سے گریز کریں"۔

1 تبصرے:

Click here for تبصرے
4 مئی، 2016 کو 7:00 PM ×

بہت شاندار لکھا ہے بھائی۔
میں بھی ابتدا میں مقدور بھر مباحث میں حصۃ لیتا رہا سوشل میڈیا پہ۔
لیکن حتمی طور پہ اسی نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ سوشل میڈیا پہ کسی ایک کو بھی بحث سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ پھر کیوں تعلقات یا ماحول کو خراب کیا جائے۔ دنیا میں پی ٹی آئی اور نون لیگ کے تقابل سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے۔
خوش رہیں اور اسی طرح مزید لکھتے رہیں۔

Selamat آوارہ فکر dapat PERTAMAX...! Silahkan antri di pom terdekat heheheh...
Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔