سٹریٹ کرکٹ کے المیے

بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ سٹریٹ کرکٹ ہی المیہ ہے۔ بہرکیف اس وقت مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا کہ یہ المیہ ہے کہ نہیں اور اگر ہے تو اسکی وجوہات کیا ہے اور اس کا ذم دار کون، بلکہ مجھے تو اپنا المیہ بیان کرنا ہے۔
خیر جی تو قصہ کچھ یوں ہے کہ حسب عادت و سابق ہم گلی کی نکڑ پہ کھڑے تھے کہ ماسی جنتیں نے صلواتیں سنانیں شروع کر دیں۔جیسے ماسی جنتے شروع ہوئی ساتھ اپنا سانا(احسان) شروع ہوگیا۔(روز دیہاڑی کا مشغلہ جو ہے)۔ وے تہانوں کوئی ہور کم نئیں ، سارا دیں منجیاں توڑ دے جے تے فئیر ایتھے آ کے کھلو رہندے جے ، کوئی شرم حیا نہیں تہانوں برکتیں بی بی ہسپتال گئی اے تہاڈی کھی کھی نہیں مکدی۔ نعیمی(نعیم) نے فوراً ہی لقمہ دیا ۔ ایس تو بہتر کی ہو سکدا اے۔
اس سے پہلے ماسی جنتے دوبارہ شروع ہوتیں ہم چاچی برکتیں کے لئے مزید برکت کی دعا لئے ان کے دروازے کے باہر کھڑے تھے۔ دروازے کھڑکھانے(کھٹکانے) پہ چاچی برکتیں کا بڑا بیٹا وارد ہوا۔جن کے بیٹے کا بھی ویاہ ہونے کو تھا لیکن چاچی برکتیں کی جوتی سے ابھی بھی ڈرتے تھے ۔ پہلے تو ہم نے رسمی کاروائی نبھائی کہ اللہ چاچی برکتیں کو مزید برکت دے (بیماری میں کامی نے سرگوشی کی) کیا کہا انکے بیٹے کے کان وی کھڑے ہو گئے کہ اے انج ای نہیں آئے۔ جی عمر میں برکت دے یہ کامی تو ایویں ہی نے میں بات کو سمیٹنے کی کوشش کی لیکن چاچا وی سمجھ گیا سی۔ کہنے لگا دسو کس مقصد کو آئے۔جی وہ اگر ہماری گیندیں مل جائیں تو نوازش ہو گی کامی نے کہا۔ (تُسی کیڑا اچار پانا اے اوناں دا ، ہن لقمے دی واری نعیمی صاب نے دتی۔) ہن نس جاؤ چاچا جی کی پھنکار ابھری نظر نہ آنا مینوں۔
اور اس کے ساتھ ہی ہماری دوڑیں تھیں اب پتا نہیں ہماری ٹانگیں زیادہ تیزی سے چل رہیں تھیں یا چاچا کی زبان خیر جیسے ہم گلی کی دوسری نکڑ پہ پہنچیں کامی نے ایک دفعہ پھر سے اپنی الف لیلٰی سنانی شروع کی کہ کب چاچی برکتیں کے گھر والوں کو معلوم ہو گا کہ گیند کی قیمت پٹرول کی قیمت سے 16 روپے زیادہ ہے اور ٹیپ کے پیسے ڈال کے ایک گیند 140 میں پڑ جاتی ہے۔ ہن تک درجن بھر درجن عدد گیندیں انکےگھر جا چُکی ہونگی۔ اے ساری گینداں توں ای سٹیاں نیں(کامی نے مجھے مورد الزام ٹھہرایا)۔ میں نے بھی کندھے اچکا کہ کہاں ہاں یار اب کیا کروں چھکا ہی اتنا لمبا مارتا ہوں۔ (سانے نے میرے مُنہ کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے کہا) پاء جی تُسی دسو آجکل پاکستان دے کس کھلاڑی دے فین او میں فوراً آکھیا کہ مصباح الحق دا۔
تو پھر اتنے لمبے چھکوں کا تصور تم نے کیسے کیا۔اس وقت وکٹ گلی کے اس نُکر پہ لگتی تھی اور چھ اوور کے میچ پانچ اوور پانچ گیندیں تیری ٹک ٹک کے بعد جب بھی تو شاٹ مارنے کی کوشش کرتا تھا نشانہ سیدھا ماسے برکتیں کے گھر کا لیتے تھا جو کہ اس وت وکٹ کے ساتھ پہلا گھر ہوتا تھا۔ اب اس طرف کی سڑک خراب ہونے کی وجہ سے ادھر وکٹ لگاتے ہیں۔
پہلے تو میں کھیسانا سا ہوا لیکن ساتھ ہی میں نے کہا پاء جی بیشک ٹک ٹک کرتا ہوں لیکن پچ پہ کھڑا رہتا ہوں ناں تسی تے پاکستان کی باقی ٹیم کی طرح یہ بھی نہیں کر سکتے۔
سانے نے بات بدلتے ہوئے کہا یار ویسے ہم نے آجتک کسی کی کوئی چیز نہیں توڑی ناں پھر بھی سارا محلہ ہماری کرکٹ کے خلاف کیوں ہے؟؟۔
نعیمی ہاں یار اب دائیں طرف والی آنٹی کی ٹیوب لائٹ اور انرجی سیور کو گیند لگ جائے تو ہمارا کیا قصور ہے۔ اور سامنے والے انکل کو کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ یہاں شیشہ مت لگوائی لیکن مانتے ہی نہیں۔ کامی بولا بائیں طرف موجود تائی سلامتے کو کئی مرتبہ کہا ہے ہنڈیا کچن میں چڑھایا کرو لیکن مانتی ہی نہیں اب ہماری گیند کو انکی ہنڈی کا ذائقہ لگ گیا ہے تو ہمارا تو کوئی قصور نہ ہوا نہ جی۔
بلکل یار اب دیکھو تائی اپنا کھانا عصر سے قبل یا مغرب کے بعد بھی تو بنا سکتی ہے لیکن کرکٹ کا بہترین ٹائم تو یہی ہے ناں۔بلکل کامی نیں وی تائید کیتی لیکن کون ہے جو ہمارا سوچے۔
اسیں کس لئے آں جیدے نیں اے پھڑ گیند تے شروع ہو جا ، او کامی تو نمبر لا اج اوور باؤنڈری کھیڈنے آں۔
 
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔