سید سبط علی

سید سبط علی، اگر عمیرہ احمد کا ناول پیرکامل پڑھ رکھا تو نام سے آشنائی ضرور ہو گی۔لیکن مختصر سا تعارف میں کروائے دیتا ہوں۔ ایک نہایت حلیم،بردبار،ملنسار،ہمدرد شخصیت۔ قریب قریب ایسی شخصیت جیسے ہماری روایتی  اور  لوک کہانیوں کے بزرگ ہوتے ہیں۔ناول کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک اہم کردار جو کے اعلٰی اخلاق اور کردار(یہ دوسرے والا کردار ہے) کے حامل ہیں۔
اس بلاگ میں یہ نام میں میٹافور کے طور پر لے رہا ہوں جسکو غفور،بشیر کا یا کوئی دوسرا نام بھی دیے سکتے ہیں۔مذکور بالا ناول پڑھنے والا بالخصوص جبکہ ہر دوسرا شخص بالعموم اس کردار یا اس جیسے کردار کا متلاشی ہے۔چونکہ ہمیں بچپن سے ہی ایسے قصے اور کہانیاں سنائے جاتے ہیں جن میں راہ چلتے آپکو ایک بزرگ ملتا ہے آپکے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے،کچھ پڑھ کر پھونک مارتا ہے یا پھر کچھ کھانے کو پیش کرتا ہے جس کیبعد آپکی دنیا بدل جاتی ہے۔ ایکا ایکی میں آپ نہایت دیندار شخصیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔اس شخصیت سے ملاقات کیبعد آپ کے دل و دماغ کی دنیا بدل جاتی ہے اور آپ کا دل دنیا سے اچاٹ اور آخرت کی فکر میں لگ جاتا ہے۔
جب بچپن ایسی قصے/کہانیاں پڑھ کر گزرتا ہے تو سن بلوغت کیبعد بھی لاشعور میں یہ باتیں موجود رہتی۔ اور باقی ماندہ زندگی اس شخصیت کی تلاش میں گزر جاتی آیا کب وہ شخص ملے گا اور ہماری قسمت بدل دے گا۔لیکن نہ وہ شخصیت ملتی ہے اور نہ دنیا بدلتی ،البتہ دنیا کے بخیلوں میں دن بدن بندہ مزید الجھتا چلا جاتا ہے۔مصاحبو سید سبط علی اور اسطرح کی شخصیت موجود دور میں تلاش کرنا ایک سراب کی مانند ہے۔ اور سراب کبھی بھی صحرا عبور کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتا۔صحرا میں بھٹکتا انسان جب سراب دیکھتا ہے تو وہ بھاگتا،دوڑتا اس مقام تک پہنچتا ہے۔لیکن پھر معلوم  ہوتا ہے کہ یہ صرف فریب تھا۔لیکن اس دوران اسکو نیا سراب دکھ جاتا وہ اسکی طرف بڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ یوں صحرا میں سراب دکھتے چلے جاتے ہیںہیں اور وہ انکے فریب میں بھٹکتا ریت کیساتھ ریت ہو جاتا ہے لیکن سراب اسے سیراب نہیں کرتے۔ چہ جائیکہ انسان صحرا میں سراب کے پیچھے دوڑے اگر وہ تمام مصائب،مشکلات کے باوجود اپنے رستہ پر چلتا منزل کی جانب بڑھتا رہے تو منزل ملنے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں ۔لیکن جب انسان ایک دفعہ سرابوں میں گم ہو جاتا ہے پھر صحرا کی منزل کبھی عبور نہیں ہوتی۔ صحرا کی ریت ہی انسان کی آخری آرامگاہ ثابت ہوتی ہے۔
سید سبط علی اور ان ایسے دوسرے کردار فی زمانہ سراب ہی ہیں۔ایسے شخص کسی ناول،قصے،کہانی میں مل سکتے ہیں،روزمرہ کی زندگی میں ملنا ناممکن نہ سہی لیکن مشکل ترین ضرور ہے۔اگر آپ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا اور آپ میں نئی روح پھونک دے گا اور آپ ایک نئے اور بہتر انسان بن جائینگے تو آپ اپنے آپکو ایک بہت بڑے دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا  فریب جیسے مصنوعی پھولوں سے تیار گیا گلدستہ، جو دکھنے میں خوشنما تو ضرور نظر آئے گا لیکن فضا معطر نہیں کر سکتا۔یہ گل خوبصورت تو لگ سکتے ہیں لیکن کمرے میں خوشبو نہیں پھیلا سکتے۔ بلکل ایسا ہی معاملہ ان کرداروں کیساتھ بھی ہے۔یہ محض سراب ہیں اور یقین مانیں اگر آپ کسی سراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو سراب کو مورود الزام ٹھہرانا قطعا درست نہیں ہے۔مانا کہ سراب میں کشش ضرور ہوتی ہے لیکن سراب کے پیچھے ہمیں اپنی غفلت دوڑاتی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ دنیا سے اچھے لوگ ختم ہو چکے یا اچھائی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کسی سید سبط علی کا انتظار کرنے کی بجائے خود وہ بننے کی کوشش شروع کر دیں۔اس سمیت ایسے جس بھی کردار کی خوبیاں آپکے دل کو لبھاتی ہیں انکو اپنانا شروع کردیں۔یہی ان کرداروں اور قصے کہانیوں کا مقصد ہے۔"بقول شخصے پھول جتنا بھی خوبصورت ہو دل کو وہی بھاتا جسکی خوشبو اچھی ہو"۔لیکن اگر آپ کسی مسیحا کے منتظر رہے تو یہ انتظار صحرا میں بھٹکنے کے مترادف ہی ہے۔اگر تو آپ ایسی شخصیات کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ نے منزل کے درست رستے کا تعین کر لیا ہے،اور اسکی جانب پہلا قدم رکھ دیا ہے۔ بقول چاچا مستنصر حسین تارڑ "پہلے قدم اٹھانے کیبعد ہی اصل آزمائش شروع ہوتی ہے"۔ سونا کندن بھٹی کی آزمائش سے گزرنے کیبعد ہی بنتا ہے۔ نخلستان کس جنت کا نام ہے اسکی قدر وہی شخص کر سکتا جس نے صحرا کی خاک چھانی ہو۔ جب آپ ایک دفعہ اس صحرا میں درست رستے کا تعین کر کے قدم رکھ دینگے تو صحرا آپکو آزمائے گا ضرور لیکن پھر خود ہی رستہ دیتا چلا جائے گا۔ جبکہ اگر آپ اگر کسی ایسے  بزرگ،مسیحا،امام مہدی کے منتظر اور متلاشی لیں تو سمجھ لیں کہ آپ سرابوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔اور سراب بھی ایسے جو لحظہ بہ لحظہ آپکو نخلستان سے دور کئے چلے جا رہے ہیں۔بقول شخصے "عقلمندی سراب یا دھوکے میں جینا نہیں بلکہ اپنی حقیقت تسلیم کر لینے میں ہے"۔  
(نوٹ:اتفاق لازم نہ ہے۔شکریہ)


5 تبصرے

Click here for تبصرے
25 جنوری، 2016 کو 7:56 AM ×

اعلی کاوش ہے
مسیحا کی تلاش میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم انسان نہیں فرشتے تلاش کرتے ہیں

Balas
avatar
admin
25 جنوری، 2016 کو 7:56 AM ×

اعلی کاوش ہے
مسیحا کی تلاش میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم انسان نہیں فرشتے تلاش کرتے ہیں

Balas
avatar
admin
18 جولائی، 2016 کو 4:54 PM ×

ماشااللہ ،بہت خوب
مگر تھوڑی سے اختلاف کے ساتھ عرض ہے کہ میرے ذاتی خیال میں سراب اگر اپنی زندگیوں سے نکل جائے ،تو امید کی جگہ یاس کنٹرول حاصل کر لے گی
جو حرارت، ٹھنڈی اور نیلی ہوتی ہوئی زندگی کو ختم ہونےسے بچانے کیلئے یہ سراب فراہم کرسکتےاکثر اوقات حقیقت نہیں کر سکتی
حقیقت کی منزل تک پہنچنے کے لئے بھی سراب سے گزرنا اور خواب دیکھنا لازم ہے

Balas
avatar
admin
18 جولائی، 2016 کو 4:56 PM ×

ماشااللہ ،بہت خوب
مگر تھوڑی سے اختلاف کے ساتھ عرض ہے کہ میرے ذاتی خیال میں سراب اگر اپنی زندگیوں سے نکل جائے ،تو امید کی جگہ یاس کنٹرول حاصل کر لے گی
جو حرارت، ٹھنڈی اور نیلی ہوتی ہوئی زندگی کو ختم ہونےسے بچانے کیلئے یہ سراب فراہم کرسکتےاکثر اوقات حقیقت نہیں کر سکتی
حقیقت کی منزل تک پہنچنے کے لئے بھی سراب سے گزرنا اور خواب دیکھنا لازم ہے

Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔