ذلتوں کے مارے لوگ (The Insulted and Humiliated)

ذلتوں کے مارے  لوگ

    The Insulted and Humiliated

فیودر دستوفیسکی

"ذلتوں کے مارے لوگ" انیسویں صدی کے مصنف فیودر دستوئیفسکی کی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے۔روسی ادب سے  شناسائی بہت عرصہ قبل استاد جی کی بدولت ہوئی تھی جب انہوں نے "چیخوف" کے کسی مشہور و معروف ناول کے تفصیلی ذکر بمعہ ایک انتہائی دلچسپ اقتباس کیا تھا۔اسکے علاوہ بھی روسی ادب کے مدح سرائی انکے لبوں پر اکثر آتی رہتی تھی۔یوں روسی ادب کی حب دل میں گھر کرتی گئی لیکن شومئی قسمت کہ پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا بلکہ سچ کہوں تو ہمت ہی نا پڑی اب خود ہی دیکھیں نام کیسے کیسے ہیں "چیخوف"،دستوفیسکی"،"ٹالسٹائی" وغیرہ وغیرہ- بندہ سنتے ہی ڈر جاتا کہ نام ایسے تو لکھا کیسا ہوگا وہ تو خدا بھلا کرے ماریہ شراپوا کا جس سے کچھ من کو شانتی ملی (نام کی حد تک بات ہو رہی محض)۔ خیر قصہ مختصر استاد کی الفت اور ماریہ کی حب ایسے میں حسن اتفاق سے یہ کتاب ہاتھ لگ گئی۔ اب جو پڑھی تو ہم ایک دفعہ سے پھر استاد جی پسند کے قائل ہوگئے۔

کتاب کا پلاٹ جیسا کا نام سے ظاہر ہے "ذلتوں کے مارے لوگ" ہیں۔ ایسے لوگ جنکے نصیب میں تلخیاں  ہی لکھ دی گئی ہیں۔رسوائیاں انکا مقدر ٹھہری اور ذلتیں قمست کی عنایت۔ لیکن یہاں ایک بات اہم ہے کہ مصنف ان لوگوں سے مراد کون لیتا ہے اسکا اظہار وہ کئی جگہوں پر مخفی الفاظ میں کرتا ہے۔اس سے مراد معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو شرافت کا دامن نہیں چھوڑتا، جو ہمیشہ اخلاق کو مقدم جانتا ہے، جسکے پہلو سے محبت اور ہمدردی ہمہ وقت چمٹی رہتی ہے۔ وہی طبقہ جو خیر خواہی کا علم بُلند کرتا ہے۔ وہی پستا ہے وہی ذلتوں کے شکار ہوتے انہی کو اذیتیں اور مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ لیکن اسکے برعکس اس معاشرے کے جو ناسور ہیں جو فرعون اور قارون بن کر زندگی گزارتے ہیں انکو عیش و عشرت بھی نصیب ہوتی،آسائش و سہولتوں سے وہ بھی مفید ہوتے، قانون انکے گھر کی باندی ہوتا، معاشرہ انکی آنکھ سے دیکھتا جیسا وہ دیکھانا چاہتے قصہ مختصر وہ جو معاشرے میں کلنک ہوتے وہ زندگی خوب گزارتے جبکہ ہمیشہ شریف اور بااصول بندہ ہی مصیبتوں، "ذلتوں" کی چکی کاٹتا ہے۔
کتاب چار سو زائد صفحات پر مشتمل ہے، اور اگر آپ میرے کہنے یا یہ بلاگ پڑھنے کیبعد کتاب پڑھتے ہیں  تو شائد پہلے پونے تین سو صفحات پڑھ کر اسقدر بور ہوں کہ مجھے کوسنے کیبعد کتاب کو ردی کی ٹوکری کی نظر بھی کر دیں چونکہ کتاب کا کہانی بہت ہی عام فہم اور سادہ سی ہے جسکی مثالیں آئے روز ہمارے معاشرے میں بھی ملتی ہیں۔ لیکن اگر میری وجہ سے ہی کتب اٹھاتے ہیں تو میرا مشورہ مانئیے کہ ہمت باندھئیے اور آخری چوتھائی بھی پڑھ ڈالئیے۔ کسی سے دعا کی امید تو پھر بھی نا ہے البتہ یہ ضرور کہتا ہوں کہ کوسنے کا عمل شائد پھر بھی اٹھا رکھیں۔
اس کتاب کے دل کو بھا جانے کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی کہ اس کتاب میں جو معاشرہ دیکھایا گیا ہے وہ غیر معمولی حد تک ہمارے آج کے  معاشرے سے مماثلت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کتاب بہت اپنی اپنی سی لگتی ہے اور پڑھنے سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں آتی بلکہ اگر،جگہوں اور کرداروں کے نام بدل دیے جائیں تو شائد نیا قاری یہ تفاوت کرنے کے قابل بھی ناں رہے کہ یہ کہانی ہماری نہیں ہے۔بلکہ کسی پرائے ملک اور معاشرے کی ہے۔استاد جی کے روسی ادب سے اسقدر لگاؤ کی بھی مجھے یہی ایک معقول صورت لگتی ہے۔
کتاب کے کرداروں میں نمایاں نام "وانیا" ہے جو کہ مصنف خود لگتے ہیں،وانیا ایک ناول نگار ہے جو نتاشا سے محبت کرتا ہے۔ نتاشا وانیا کے محسنوں کی بیٹی ہے،وانیا کے والدین جلد دنیا سے گزر کئے تھے اسکے بعد اخمنیف خاندان نے انکی کفالت کی۔ یوں نتاشا کیساتھ وہ بھی بڑھے ہوئے اور اسکی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ نتاشا جو کہ کافی حد تک کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ نتاشا، الیوشا نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے اور گھر چھوڑ دیتی ہے۔ الیوشا، پرنس والکوفسکی کا بیٹا جو کہ کافی اہم شخصیت ہے اور کہانی کا بہت اہم کردار ہے۔ بڑے میاں (اخمینف) انکی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ مکمل انصاف سے کام لیتے ہیں لیکن پھر بھی پرنس ان پر دھوکہ دہی کا الزام لگاتا ہے اور دس ہزار ہرجانے کا دعوی کر دیتا ہے۔ اگرچہ بڑے میاں حق پر ہیں لیکن اثرورسوخ کی بدولت پرنس صاحب بڑے میاں کو کافی تنگ کرتے ہیں اور انکو کافی بدنام کرتے ہیں۔ الیوشا ایک بیس بائیس برس نوجوان لڑکا ہے جو دل کا صاف،کھرا ہے۔ الیوشا، نتاشا سے خوب محبت کرتا ہے اس سے شادی کےدعوی کرتا ہے اسکو ایک گھر میں رکھتا ہے لیکن چونکہ اسکا والد اس نکاح پر راضی نہیں اسلئے وہ انکی رضا مندی تک شادی ٹالتا رہتا ہے۔ اسی دوران پرنس صاحب الیوشا کو ایک صاحب دولت لڑکی کاتیا سے ملواتے ہیں۔ کاتیا ایک خوبصورت لڑکی ہے صاحب ثروت بھی ہے حلیم طبیعت کی مالک بھی، پرنس اسکی الیوشا سے نسبت ٹھہرا دیتے ہیں۔ لیکن شادی کے روز سے قبل الیوشا، کاتیا کو ساری صورت حال سے آگاہ کئے دیتے ہیں جسکے بعد کاتیا شادی سےانکار کر دیتی ہے۔ کہانی اس کشمکش میں آگے بڑھتی ہے الیوشا، نتاشا سے بھی بری طرح محبت کرتا ہے جبکہ کاتیا سے بھی اسکی الفت کافی حد تک بڑھ چکی ہے ۔ بڑے میاں بیٹی کی اس حرکت سے کافی غصے میں آتے ہیں وہ بیٹی سے قطعی تعلق کر لیتے ہیں بلکہ عاق کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالتے،یہاں عاق کرنے سے مراد نا صرف جائیداد بلکہ پدرانہ شفقت،دعائیں وغیرہ بھی عاق کرنا مقصود ہے جو کہ اسوقت کے معاشرے میں بہت اہم سمجھی جاتی تھیں،اور عاق کرنے کو ایک بہت بڑی نحوست سمجھا جاتا تھا،جسپر عذاب نازلہ وتے ہیں۔ اس دوران بڑے میاں کی بیوی کافی پریشان رہتی ہیں انکو بیٹی سے محبت بھی ہے لیکن شوہر کی محبت اسے بڑھ کر ہے وہ روزانہ بیٹی کے لئے دعائیں کرتی ہیں وانیا سے مسلسل اسکی خبریں لیتی ہیں جبکہ بڑے میاں کے سامنے بلکل خموش ہو جاتی ہے۔ وانیا دن رات مسلسل انکی چکروں میں ہوتا ہے اسکو ہر وقت نتاشا کی فکر لگی رہتی ہے وہ ہمہ وقت اسکی دلجوئی کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔اس سلسلے میں اسکی خوب بھاگ دوڑ ہوتی ایک لمحہ کو وہ بڑے میاں کے ہاں ہوتا جبکہ دوسرے لمحے وہ نتاشا کے پاس اسی دوران اسکے پبلشر کی طرف سے اسکو دوسری کتاب کوجلد از جلد مکمل کرنے کا کہا جاتا ہے لیکن وہ ٹھیک سے وقت نہیں دے پاتا لیکن پبلشر کا قرضہ اور مطالبہ اس پر آئے روز بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وانیا کوبارہ، تیرہ برس کی ایک لڑکی نیلی ملتی ہے۔ وہ بھی کہانی کا ایک دلچسپ کردار ہے اسکی والدہ بھی کسی کے عشق میں گرفتار ہو کر گھر چھوڑ کر نکل جاتی ہے جس پر نیلی کے نانا اسکو کبھی معاف نہیں کرتے اور وہ ایڑیاں رگڑتے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں انتقال کر جاتی ہیں۔ نیلی کا اس کہانی میں کرداربہت ہی اہم  اور خوبصورت ہے اس گڈ مڈ اور الجھوں ہوئی ڈوروں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ جاننے کے لئے آپکو کتاب کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ کتاب کے متعلق ایک بات کہوں وہ اسکی مسلسل کہانی اور ایک بات سے دوسری بات تک کا ربط جسکی ایک جھلک میں نے اس پہرے میں دیکھانے کی کوشش کی ہے لیکن جس خوبصورتی سے مصنف نے یہ کہانی پیش کی اس کا تو میں عشر عشیر بھی نہیں کرسکتا۔
کتاب کے پلاٹ کا تذکرہ بھی ہو گیا کردار اور کہانی کا مختصر حلیہ بیان بھی کرنے کی کوشش کر چکا لیکن اگر میں یہاں مترجم کی تعریف ناں کروں تو یہ ظ-انصاری صاحب سے سخت زیادتی ہوگی۔ انصاری صاحب نے کیا ہی خوب ترجمہ کیا اردو زبان کا ایک ترجمہ میں اسقدر خوبصورتی سے استعمال پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔چونکہ میں نے کتاب کو پہلے انگریزی میں نہیں پڑھا تو تقابلی جائزہ لینا ممکن نہیں لیکن پھر بھی کہوں گا کہ انصاری صاب نے کتاب سے خوب انصاف کیا چونکہ میں اس سے قبل پاؤلو کوئیہلو کی شہرہ آفاق کتاب "الکیمسٹ" سمیت چند دوسری کتابوں کا اردو ترجمہ بھی پڑھ چکا لیکن اس جیسا ان میں سے کوئی بھی نہ  تھا۔
جیسا کہ اوپر بھی کہہ چکا ہوں کہ کتاب کا ٹیمپو کافی سست سا ہے جسکی وجہ سے آجکے قاری کا عاجز آ جانا ظاہری سے بات ہے لیکن آپ اگر ہمت کرکے تین پاؤ کتاب پڑھ لیں تو آخری پاؤ آپکو وہ لطف عنایت کرگا کہ آپ مصنف کو کہانی پیش کرنے ، اسکو آگے بڑھانے، انجام تلک پہنچانے سمیت اپنا پیغام پہنچانے کی داد دئیے بغیر ناں رہ سکے گے۔ چونکہ کہانی عام فہم سی اسلئے جلد ہی نتیجہ پر پہنچ جانا اور اسکے انجام بھی پہلے سے ہی سوچا جا سکتا ہے لیکن مصنف نے نہایت خوبصورت انداز میں ان باتوں کو پیش کیا ہے جن میں ہی کتاب کا اصل حسن مخفی ہے۔ کتاب میں محبت کے متعلق ایک مختلف نظریہ پیش کیا جسکو میں تو انتہائی دلچسپ اور خوبصورت سمجھتا ہوں (آپکا مجھ سے  متفق ہونا ضروری نہیں)۔ ساری کتاب کو ایک لفظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو وہ لفظ بجا طور پر "محبت" ہی ہے۔مصنف نے محبت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ محبت صرف حاصل کرنے کا نام نہیں ہے محبت بانٹنے کا نام ہے،ہر دم خود کی نفی اور دوسرے کی خوشی مطلوب ہونا محبت ہے۔ الغرض یہ کتاب ہر لحاظ سے ایک منفرد اور خوبصورت ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اپنی بات کو یوں سمیٹوں گا کہ ہر ایک ذہن مختلف سوچتا اور رائے رکھتا ضروری نہیں کہ یہ کتاب پڑھ کر آپ بھی ویسا ہی سوچیں اور اسکو ویسا ہی پائیں جیسا میں نے محسوس کیا ہے لیکن پھر بھی یہ کہوں گا کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ایک دفعہ اسکا مطالعہ ضرور کریں اردو ترجمہ شائد مشکل سے ملیں لیکن انگریزی میں کتاب باآسانی دستیاب ہو جائے گی، ایک دفعہ ضرور اٹھائے پڑھنے کو قوی امید ہے مکمل کئے بنا نیچے رکھنا ممکن نہ ہو سکے گا ۔شکریہ۔
کتاب انگریزی میں پڑھنے کے لئے یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔
اردو میں پڑھنے کی سبیل یوں ہے کہ کتاب فکشن ہاؤس کی طرف سے پبلش کی گئی آپ ان سے رابطہ کر کے بھی منگوا سکتے ہیں ایک ہفتے کے اندر کتاب آپکو دروازے پر ملے گی۔(بقول انکے)۔
فکش ہاؤس کا رابطہ نمبر یہ ہے۔  7249218-0423
 

2 تبصرے

Click here for تبصرے
2 اکتوبر، 2015 کو 10:24 PM ×

بہت خوب ناگفتہ بھائی
کمال کا تعارف پیش کیا آپ نے اس شاندار کتاب کا۔
کتاب دراصل صرف پڑھنے کی ہی چیز نہیں ہے، بلکہ محسوس کئے جانے کی چیز بھی ہے۔ آپ کے اس تعارف کو پڑھ کے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے خود بھی اس کتاب کو محسوس کیا ہے اور اس تبصرے کے ذریعے ہم سب کو بھی محسوس کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔
بہت خوشی ہوئی آپ کی تحریر اور لفظوں پہ گرفت میں تیزی سے بڑھتی مہارت دیکھ کر۔
اسی کے ساتھ ساتھ اندازِفکر کا تیز تر ارتقاء محسوس کرنا بھی بلاشبہ خوش کن ہے۔
خوش رہیں

Balas
avatar
admin
2 اکتوبر، 2015 کو 11:03 PM ×

آوارہ فکر کی جانب سے اسقدر حوصلہ کن الفاظ ہی میرے لئے کتاب اور اس بلاگ کا ثمر ہیں۔ بہت شکریہ حضور یہ ارتقاء اور محسوس کرنے کی حس سب آپکی ہی بدولت ہے۔ اور ناگفتہ تہہ دل شگفتہ انداز میں آوارہ فکر کواپنا محسن جانتی ہے۔ بہت شکریہ جناب،

Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔