مقدس گائے!!!

جیسے ہی امام نے نماز کے بعد کی دعا مانگنی شروع کی، جنرل ضیاء کو محض ایک لمحہ لگا یہ محسوس کرنے میں کہ ایک دفعہ پھر وہ حضرت یونس کا قصہ سننے جا رہے۔دوسرے لمحے اسکو خیال گزرا امام صاحب نے پہلے کبھی یہ دعا نہیں مانگی۔اسکی خاموش سبکیاں ابھر آئی۔دوسرے نمازی اپنی دعا میں مشغول رہے چونکہ وہ جنرل ضیاء کے دوران نماز رونے کے عادی تھے۔ہاں انکو یہ معلوم نہ تھی آیا اسکا سبب انکی مذہب سے شدید وابستگی،ریاستی مسائل یا خاتون اول کی ایک طرف پھر سے  زبان درازی ہے۔ہر ایک نے یوں محسوس کرایا جیسے انہیں صدراتی آنسوؤں کا علم نہیں۔جنرل ضیاء نے اپنا چہرہ بائیں گھمایا پھر دائیں موڑا،سب کو سلام کہا اور جنرل اختر کا تھام لیا۔اس نے بولنا چاہا مگر اٹک گیا۔جنرل اختر نے اس کے ہاتھ کی پشت کو دبدیا اور انہیں تسلی دی۔ آخر الفاظ نکل ہی آئے "برائے کرم میرا سکیورٹی لیول بڑھا دو"۔جنرل اختر نے مثبت انداز میں سر ہلایا اور ہاتھ کو دوبارہ باکسر کی سی گرفت سے دبایا۔جنرل ضیاء نے سبکی بھری، بائیں آنکھ سے آنسو ٹپکا،کن اکھیوں سے متجسسانہ طور پر امام کو دیکھا اور کہا "ریڈ لیول تک بڑھا دو از راہ کرم"۔(اقتباس)
آنکھ کھولی تو رسم گڑھتی کیساتھ جو بات اندر اتاری گئی وہ تھی افواج پاکستان کی محبت،رہتی سہتی کسر پہلی دوسری تیسری کے قاعدوں نے نکال دی جن میں افواج پاکستان کی مدح سرائی یوں کی گئی کہ اسکا تاثر "مقدس گائے" سا ابھرتا گیا۔وقت کی دبیز تہیں اس عقیدے پر پڑتی گئیں اور اسکو مضبوط تر کرتی گئیں۔اور اس خیال پر بھی ویسے ہی غلاف چڑھا کر اوپر طاقچے پر رکھ چھوڑا جیسے کتاب الہی کو رکھا جاتا۔ بس کبھی کبھار اتار کر ایک دفعہ فرط محبت میں بوسہ دیا اور پھر اوپر رکھ دیا۔اور جب کبھی اتار کر دیکھا تو خیال گزرا کہ آیا اس "مقدس گائے" کی پوجا کیوں کی جاتی ہے؟؟
اوپر دیا گیا  اقتباس محمد حنیف کی کتاب "اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز" سے لیا گیا ہے۔ اور یہ الفاظ جناب مرد مومن مرد حق ضیاء الحق صاب کے ہیں۔ اس اقتباس میں وہ اپنے رائٹ ہینڈ جنرل اختر صاحب  سے اپنی سکیورٹی لیول کو بڑھانے کی التجا کر رہے جبکہ وہ پہلے ہی مکمل سکیورٹی کے حصار میں ہیں۔گھر آفس سب کچھ فوج کی سخت نگرانی میں،گھر سے شاذو ناظر ہی باہر نکلتے ہیں۔اگر نکلیں بھی تو مکمل پروٹوکول کیساتھ۔ لیکن اسلام کا یہ عظیم مجاہد جس نے خلافت کو پھر سے قائم کرنے کی کوشش کی اپنی موت کے خوف میں مبتلا ہے چونکہ اس نے خواب میں آیت الکریمہ جسکو حضرت یونس علیہ السلام کی دعا بھی کہتے ہیں پڑھتے دیکھا ہے۔یہ عالم ہے جناب کے اعتقاد کا جبکہ دعویٰ ہے کہ اس عظیم مجاہد نے وطن عزیز سمیت اسلامک ممالک میں اسلام کا بول بالا پیش کرنے کی خوب سعی کی، اپنی ہمت و استقامت سے روس جیسی سپر پاور کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔لیکن اس عظیم محسن نے ملک خدداد کو ایک ایسی بھٹی میں جھونکا جس کی تاپ آج بھی ہم سینک رہے ہیں معلوم نہیں کب تلک سینکتے رہینگے۔
مقدس گائے جب بھی کوئی بچھڑا جنتی ہے تو ہم پوری عقیدت کیساتھ اسکی تعریف و توضیح میں جُٹ جاتے ہیں۔لیکن مقدس گائے کو ان سپوتوں کا بھی حساب دینا ہوگا جنکی وجہ پنج-آب بے آب ہو گیا،جسکی وجہ سے ملک دو لخت ہوگیا،جسکی وجہ ایسا کلچر متعارف ہوا جسکی آواز آج بھی آتی ہے اور روز ماؤں کی گود اجڑتی ہیں ،جسکی وجہ ملک کا ایک صوبہ اب شدید بے چینی اور اضطراب کی حالت میں، خود کو اپنے ہی وطن میں اجنبی گردانتا ہے۔لیکن اس سب کے باجود بھی مقدس گائے کہ وجود پر حرف شناسی کرنا بعید از قیاس ہے۔ اور یہ گائے ایسی بدمست ہو چکی ہے کہ جیسے ہی آپ اسکو نکیل ڈالنے کی کوشش کرینگے یہ آپکی سینگوں، ٹانگوں سے ایسی تواضع کرے گی کہ آپ "جان بچی سو لاکھوں پائے "میں عافیت جان کر خاموش ہو جائینگے۔
مجھے بھی اس مقدس گائے سے ایسی والہانہ عقیدت تھی کہ جہاں فوجی دیکھتا اسکو سلام (سلیوٹ) کرتا اور جب کبھی پاک فضائیہ کا جہاز سر سے گزرتا تو خوشی سے میری باچھیں کھل جاتی، لیکن حال ہی میں کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ مقدس گائے پر چڑھائی گئی چادروں میں تھوڑا شگاف ضرور پڑا۔ مجھ اس وقت سوچ میں پڑ گیا جب معلوم ہوا کہ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا،یہ جان کر اب کی بار ٹارگٹ مہران بیس تھی میں حیران رہ گیا۔ پھر خبر آئی کہ واہگہ بارڈر پر حملہ ہوا۔ اور ان سب سے اندوہناک المیہ سانحہ پشاور تھا۔ میں ہر واقعہ کیبعد اس بات کا منتظر رہتا ہوں بقول شخصے دنیا کے بہترین انٹیلیجنس ایجنسی آج نہیں تو کل اس حملے کی وجوہات، سکیورٹی لیک سمیت اسکے ذمہ دران کو سامنے لایا جائے گا۔ ان سب کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کیجائے گی۔ قوم اور خاص طور ان لواحقین سے جنکے صاحبزدگان نے ان تمام واقعات میں جام شہادت نوش کیا معذرت کیجائے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ بقول استاد جی ہمیں ان تمام واقعات سے بہادری اور شجاعت کی نئی داستانیں تراش لاتے ہیں۔۔اور اگلے دن خبر چھپتی ہے کہ نوجوانو نے جم کر مقابلہ کیا اور حملہ آوروں کے خواب کو خاک میں ملا دیا۔ ذرا سوچیں کیا جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں وہاں حملہ کر کے سارا ملک چلانا تھا یا مہران بیس پر ۔ کامرہ بیس پر حملہ ہوا وہاں پر کم از کم قوم کو اواکس طیاروں کی صورت میں پچاس ارب روپے کا ٹیکہ لگا۔ لیکن نہ تو کوئی رپورٹ آج رک سامنے آئی اور نہ ہی کوئی ملزم کیفر کردار تک پہنچا۔ ان سب واقعات سے ہٹ ایک وقوعہ ہے جو شائد اپنی نوعیت کا دنیا بھر میں واحد معاملہ ہے کہ دوسرے ملک سے تیسرے ملک کی فوج کے دو ہیلی کاپٹر اور فوجی آتے ہیں دارالخلافہ سے چند کلومیٹر دور،ملک سب سے بڑی فوجی نرسی  جس پر فخر کیا جاتا کہ پڑوس میں اپنی مرضی  سے آپریشن کرتے ہیں اپنا ٹارگٹ حاصل کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔لیکن مقدس گائے پھر بھی مقدس ہی رہتی ہے۔
میرے کہنے کا مقصد یہ کہ جس طرح اس عظیم کتاب جسکے مخاطب ہم، جس میں بار بار "یاایھاالناس" کہہ کر ہمیں متوجہ کیا گیا اسکو کس خوبصورتی ہماری وساطت سے دور کیا گیا کہ اب اسکا ہمارے ہاں استعمال صرف دلہن کی رخصتی، حلف اور قسم اٹھانے کے لئے ہوتا ہے۔ ایسے ہی مقدس گائے نے خود کو محفوظ کر رکھا، گیاری سیکٹر میں شہید ہونے والوں،سیاہ چین اور کارگل کی برف تلوں دبنے والوں یا لائن آف کنٹرول پر ہماری حفاظت کی خاطر جان قربان کرنے والوں جوانو کے نام پر۔ اور انہی سے  اس ادارے کا تقدس قائم ہے۔اوپر بیان کئے گئے واقعات سے مقدس گائے کی حرمت میں اضافہ ہی ہوا ہے لیکن قوم کو یہ جاننے کا پورا حق حاصل ہے کہ یہ واقعات ہوئے کیوں؟؟ اور ان سب کی ذمہ داری کس پر ہے؟؟ اس بات کا اندازہ کرنا کہ اس ادارے نے مقدس گائے کا روپ کیسے اختیار کیا کافی مشکل ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے اسکے اس روپ کو برقرار رکھنے میں جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ہم میں سے ہر نسل جو اسوقت سنہ بلوغت کے بعد کی زندگی گزار رہے اور عقل شعور رکھتےنے مقدس گائے کی حکومت تلے  اپنی زندگی کا بیشتر وقت گزارا ہے۔اور ان سب کے ذہن میں مسلسل یہی تاثر دیا جاتا کہ بس یہ چیز وطن کی نجات دہندہ ہے یہی وجہ ہے ہم آج بھی" عزیز ہموطنو، ملک اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،اور میں اس سلسلے میں حاضر ہوا ہوں" سننے کے لئے تیار ہیں۔ اس بات میں قطعی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ادارہ وطن عزیز کا اہم ترین ادارہ ہے لیکن ادارے کو اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنا ہوگا جسکی پامالی وہ آئے روز کرتا ہے۔ یہ گائے اسقدر مُنہ زور ہو چکی کہ جو اسکو نتھ ڈالنے کی کوشش کرتا اسکو ایک ہی ٹکر سے مُنہ کے بل گرا دیتی۔ یہ تاثر برسوں کی محنت سے قائم کیا گیا ہے اسکو ایک بلاگ یا ایک کتاب سے  زائل کرنا ممکن نہیں لیکن عرض صرف اتنی ہے "ذرا سوچئیے" غور کیجئے اور خود سے سوال کیجئےکہ آیا مقدس گائے کا تصور ہمارے مذہب ہماری ریاست وغیرہ میں کہیں موجود ہے ۔

1 تبصرے:

Click here for تبصرے
23 اکتوبر، 2015 کو 10:03 PM ×

|o|

Selamat Unknown dapat PERTAMAX...! Silahkan antri di pom terdekat heheheh...
Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔