چونکہ میرے پاس دو گائے موجود ہیں

چند دستوں کیساتھ ایک کھوکھے پر چائے کا دور چل رہا تھا۔مختلف موضوعات پر بحث جاری تھی بقول شخصے چائے میں عجیب تاثیر ہے جیسے جیسے یہ اندر اترتی چلی جاتی ہے۔ایک مفکر خود بخود ہی باہر آ جاتا ہے۔ پھر ایسے میں جہاں دوست بیٹھے ہوں چائے چل رہی ہو بحث نہ ہو ناممکن سی بات ہے۔ باتوں ہی باتوں میں بات چلتی ہوئی ایلان کردی تک جا پہنچی، گوگل مت کریں شائد آپ بھول گئے ہوں۔ یہ وہی شامی بچہ ہے، جی ہاں وہی بچہ جس شہید کی نعش ترکی کے ساحل پر ملی تھی۔ جس کے لئے ہم سب نے ٹویٹس، پوسٹس ، اسٹیٹس وغیرہ کی شکل میں خوب آنسو بہائے تھے۔ خوب آہ و فغان کیا تھا۔ ہاں جی وہی جسکے بعد ہم نے کہا تھا اب انسانیت کا وجود اس دنیا سے اٹھ چکا اب ہمارے جینے کا مقصد ختم ہو چکا اب یہ دیکھنے کہ بعد مجھے میں جینے کی مزید سکت نہیں ہے۔ اب تو آسمان  پر فرشتے بھی رو پڑے ہونگے۔ وغیرہ وغیرہ جی اسی ایلان کردی کی بات تھی۔ اب بحث اس معصوم کی شہادت پر تھی اور ہر کوئی اپنی دلیل سے یہ ثابت کرنے میں مصروف تھا کہ آیا یورپ اسکی موت کا سبب یا اسلامک بلاک،یونان کو اسکا مورود الزام ٹھہرایا جائے یا ترکی کے صاحبان اقتدار کو۔
خوب گرما گرم بحث جاری تھی اتنے میں کوڑا اٹھانے والا شخص آتا ہے۔مریل سا گدھا ریڑھی کے آگے جتا ہوا جو ہمارے کوڑھے کا بوجھ سہارنے سے بھی قاصر تھا اور ساتھ اسکا مالک جسکو غالباً گدھا بوجھ لگتا اور گدھے کو مالک بوجھ- ساتھ اسکی سات، آٹھ سال کی معصوم سی بچی تھی۔ پاؤں میں جوتی نہ تھی، بال الجھے ہوئے اور کپڑوں پر میل کی دبیر تہیں جمی ہوئی۔ ہم اپنی گفتگو میں مصروف تھے کہ اتنی میں وہ معصوم بچی ایک طرف ہو کر ٹافیوں کے چند رئیپر اٹھاتی ہے اور انہیں چاٹنے لگتی ہے۔ شائد کچھ اس رئیپر سے لگی رہ گئی ہوگی۔ بچی کے چہرے سے بھوک جھلک رہی تھی۔میں بچی کو دیکھتا اور دوستوں کو دیکھتا لیکن کسی کے چہرے پر ایک شکن تک نہ تھی ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور سب ویسے ہی اپنی بحث میں مشغول رہے۔ میں وہاں سے اٹھ کر آیا مگر دیر تلک یہی سوچتا رہا کہ آیا ایلان کردی اور اس معصوم بچی میں کیا فرق تھا۔یہی کہ اس غریب کے کپڑے میلے کچیلے تھے، یہی کہ اسکے بالوں میں مانگ نکالے کئی ہفتے یا شائد مہینے گزر چکے ہونگے۔ یہی کہ اسکے پاؤں میں جوتی نہیں تھی یا یہ وہ ایک کوڑے اٹھانے والے چوہڑے کی بچی تھی۔آخر کیوں ہمیں اس بچی اور اس جیسے بچوں کا احساس نہیں ہوتا؟؟کیوں ہمیں کبھی کوڑھے کے ڈھیر سے کھانے کی تلاش کرتے بچوں کا احساس نہیں ہوا؟؟۔    
استاد جی ایک لطیفہ نما بات سنایا کرتے تھے کہ "کمیونزم انقلاب کے ابتدائی دور میں دو انقلابی بیٹھ کے انقلاب کی حمد و ثنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک پوچھتا ہے کہ اگر تمہارے پاس دو بنگلے ہوں تو۔ پہلا کہتا ہے میں ایک انقلابی قیادت کو عطیہ کر دوں گا۔ اسی طرح دوسرا دو گاڑیوں، دو سکوٹروں کا پوچھتا ہے تو ایسا ہی جواب پاتا ہے۔پھر پوچھتا ہے کہ اگر تمہارے پاس دو گائے ہوں تو ۔۔۔۔ اس پہ پہلا کہتا ہے کہ دونوں پاس ہی رکھوں گا۔۔۔۔۔ اس پہ دوسرا وجہ پوچھتا ہے کہ کیوں،،،، تو جواب دیتا ہے کہ چونکہ میرے پاس دو گائے موجود ہیں۔"
معلوم نہیں یہ بات درست ہے یا نہیں لیکن ہمارا حال قریب قریب ایسا ہی ہے۔ ہماری نیک جذبات اور احساسات تبھی پروان چڑھتے جب تلک ہم ان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ ہماری اخلاقیات  کا دائرہ کار وہاں تک ہی وسیع جہاں تک یہ ہمیں بھی خود میں لپیٹ نہیں لیتا اور جیسے ہی ہم اس حدود میں داخل ہوتے ہیں ہمارے احساس بھی بدل جاتے جذبات بھی اور اسکی جگہ مجبوریاں اور دوسری وجوہات لے لیتیں ہیں۔ ہمیں ایلان کردی کا دکھ تو محسوس ہوتا لیکن ان سینکڑوں بچوں پر ترس نہیں آتا جو شادی ہالوں کے عقب میں کھانا ڈھونڈتے پھرتے، جو کمر پر بوری باندھے جگہ جگہ خالی بوتلیں اکھٹی کرتے پھرتے انکے کرب نے تو ہمیں کبھی نہیں جھنجوڑا؟؟ اگرچہ مزید بھی لکھا یا کہا جا سکتا لیکن استاد جی کہ اس قول سے بات کو سمیٹوں گا کہ "جب تک تو اپنے ہاتھ پیر یا جیب کو کچھ نہ ہو۔۔۔۔ تب تک ہم سے بڑا محبِ وطن، مومن کامل کوئی نہیں"۔


3 تبصرے

Click here for تبصرے
11 اکتوبر، 2015 کو 3:59 AM ×

بہت عمدہ جناب۔
ماشااللہ سے آپ کا اندازِ تحریر بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔
معاشرے کے تضادات پہ بات کرنا میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے۔ پہلے تو صرف منٹو اور حسن نثار وغیرہ کو پڑھنے سے گزارا چلتا تھا۔ اب امید ہے کہ آپ کی جانب سے بھی اسی موضوع پہ تحاریر کا سلسلہ جاری رہے گا۔
خوش رہیں۔

Balas
avatar
admin
23 اکتوبر، 2015 کو 10:11 PM ×

wah...kya bat hai.................awesome carry on

Balas
avatar
admin
4 اپریل، 2016 کو 1:43 PM ×

بہترین، آپ کی شاگردی اختیار کرنی پڑے گی۔

Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔