ہاؤؤؤؤؤؤؤ!!!

سرپٹ دوڑتے ہوئے اُس نے ایک دفعہ پھر سے مُڑ کر دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو میرا قصور کیا ہے؟ اس کی ملتجیانہ نظریں بار بار سوال کر رہی تھیں، ایک دفعہ میرا قصور تو بتا دو؟ اس کا سانس پھولتا جا رہا تھا، ٹانگیں پسینے سے شرابور اور بھاری ہوتی جارہی تھیں قریب تھا وہ گر جاتا لیکن اپنی جانب  بڑھتے ہوئے ہجوم کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر سے ہمت جمع کر کے دوڑنا شروع کردیا۔

ہر چوک کے بعد بھیڑ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ بھیڑ میں شامل ہر ایک اپنا راگ الاپ رہا اور ہر ایک کا سُر دوسرے سے الگ تھا۔ سارے شور و غوغا میں کچھ بھی سمجھنا سمجھانا ممکن نہ تھا۔ اب کوئی مدعا نہ تھا بس ایک ہی جنوں تھا کہ پہلے شکار کون کرتا ہے۔ اس اعزاز کے لئے ہر کوئی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھا۔
بھاگتے بھاگتے وہ گاؤں کے آخری کونے پر پہنچ گیا۔ چھپڑ اور اس کے بعد کھیت اسے زندگی کی لائف بوٹ محسوس ہوئے۔ زندہ بچ جانے کی موہوم سی اُمید نے  اس کے بدن کا ساتھ چھوڑتی ٹانگوں میں پھر سے توانائی  بھر دی۔ اُس نے  ایک بار پھر کرمُڑ دیکھا جیسے اُس شخص کو ڈھونڈ رہا ہو جس نے یہ معاملہ شروع کیا تھا۔  کیونکہ اب ہر ایک کی آنکھیں ایک ہی بات کہہ رہی تھی  وہ یہ کہ  انہیں  نہیں معلوم وجہ کیا ہے۔
ہجوم اور  اس کا درمیانی  فاصلہ کم ہو تا جارہا تھا۔ اتنے میں ایک آواز آئی  آخر اس نے کِیا کیا ہے؟ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا گیا ، ہوا کیا ہے؟ ساری زبانیں گنگ تھیں۔ کسی کو جواب معلوم نہیں تھا کہ اچانک  ایک  اور آواز  گونجی 'دیکھو!  دوڑنے نہ پائے، جلدی کرو ، اگر کھیتوں میں داخل ہو گیا تو ملنا مشکل ہے'۔ یہ سنتے ہی سب دوبارہ اس کی  طرف لپکے۔ اسی دوران وہ چھپٹر کے فاصلے کو پاٹ چُکا تھا۔ کھیت اور اس کے درمیان چند قدموں کا ہی فاصلہ  رہ گیاتھا۔ منزل کو عین سامنے پا کر اُس نے ایک بار پھر ہجوم کی طرف نظر دوڑائی۔ یہ  گویافاتحانہ نظر تھی۔ کسی ماہر گھڑ سوار کی  سی نظر جو وہ عین رسی کو توڑتے سمے ساتھی گھڑ سواروں پر ڈالتا ہے۔ اُس نے گردن واپس مُوڑی ہی تھی کہ یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پیٹ میں گرم سُلاخ اتار دی  گئی  ہو۔ گولی  کی آواز  سن کر قریبی درختوں پر بیٹھے کوے کائیں کائیں کرتے اُڑنے لگے۔ وہ  یکدم لڑکھڑا گیا لیکن پھر سنبھل کر دوڑنے کی کوشش کرنے لگا اتنے میں ایک  اور سلاخ  اس کے بدن میں سوراخ کرتے گزر گئی۔ اب کی بار وہ گرا تو پھر نہ اٹھ سکا۔
ہجوم رُک گیا۔ سب نے ستائشی نظروں سے گولی باز کی جانب دیکھا۔ ایک طرف  سےپھر وہی آواز آئی لیکن اس نے کیا، کیا تھا۔ اب کی بار مجمع کو توڑتا ایک شخص سامنے آیا اور کہنے لگا،  جب مسجد سے اذان شروع ہوتی تھی تو عین اُسی لمحے یہ بھونکنا شروع کر دیتا تھا ، بے ادبی کرتا تھا اور عجیب عجیب آوازیں نکالنے لگتے تھا جیسے ۔۔۔ وہ ابھی  بتانے ہی لگا تھا کہ،
کتے نے آواز نکالی ہاؤؤؤؤؤؤؤ!!! جیسے اُسکی بات سُن لی ہو اور جواب  دیا  ہو۔ لیکن  اس کی  آواز  پوری طرح نہ نکل سکی اور اس کے گلے میں ہی دب گئی ۔ شائد یہی اس کا  سوال اور یہی جواب تھا ۔ "ہاؤ"

3 تبصرے

Click here for تبصرے
3 مئی، 2017 کو 2:06 AM ×

زبردست جناب۔
یہ وقت بھی تقریباؐ آن ہی پہنچا ہے۔

Balas
avatar
admin
3 مئی، 2017 کو 8:24 PM × یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
avatar
admin
1 فروری، 2022 کو 11:15 PM ×


بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔

کیا ہی خوب ! فردِ واحد عام طور پر عقل کا دامن تھام رکھتا ہے ، نہ جانے کیوں گروہ کی عقل ماؤف ہو جاتی اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا ضروری ہو جاتا۔

Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔