"انگریجی والا"



 انور مسعود صاحب نے شائد میرے لئے ہی کہہ رکھا ہے کہ: 
"دوستو! انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
 فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہئیے" 
موئی انگریجی سدا سے میرے لیئے صورِ اسرافیل ثابت ہوتی ہے۔ ماسٹر اسلم اور اصغر علی قادری صاب کے ڈنڈوں کے ڈر سے "ونس دیر واز ا ے کرو، ہی واز ویری تھرسٹی"۔ (اسکو آپ ٹھیٹھ پنجابی لہچے میں دہرائے، جی جی دہرا لیں ایک مرتبہ شرمائے مت۔دہرا لیا) جی بلکل ایسے ہی جیسے آپ نے دہرایا ہے ہم رٹ رٹا کر بالترتیب پرائمری اور میٹرک کیا۔ اور انہی کے طرز کے ایک ماسٹر بیگ صاب کے توسط انٹر کے پرچے میں بھی جیسے تیسے پاس ہوگئے، البتہ پلے اس کا سر پڑا نہ دھڑ۔ بہرکیف کرتے کراتے جامعہ آ پہنچے۔ اب جب پتہ چلا کہ یہاں بھی اے فار ایپل، بی فار بال رٹنا پڑے تھا مانوں ہمارے تو طوطے اڑ گئے۔

 گزشتہ تجربات کی روشنی میں میرے سر میں "انگریجی والے"  ماسٹر کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ اک بڑی سی توند، موٹی سے عینک۔بھاری سے آواز کو زور زبردستی سے فرنگیوں کا لہجہ پہنوانے کی کوشش اور اس پر اپنی عینک کو اسٹینڈ سمجھ کر اس کے اوپر سے گھوری ڈالتے ہوئے اپنی علمیت جھاڑا کرینگے۔ جب ہم کلاس روم کے دروازے پر پہنچے تو ہمیں ایک لمبا سا انسانی سانچہ نظر آیا جس پر کھینچ تان کر پاؤ ڈیڑھ پاؤ گوشت چڑھایا گیا تھا۔ نہ ہی کوئی توند اور نہ ہی عینک، بلکہ بیسویں کے آکڑے کو پار کرتا ایک نیم خوبرو (تقریباً) جوان شخص موجود تھا۔ چونکہ شروع شروع کے ایام تھے، ابھی کلاس میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہم سمجھے شائد کوئی نئی بھرتی ہے۔ اسلئے ادائے بے نیازی سے خراماں خراماں چلتے پچھلی نشست پر پناہ گزیں ہوئے۔ جب تلک ہماری والک جاری تھی موصوف بلکل خاموش رہے لیکن جیسے ہی بیٹھے تیکھی سی انگریجی میں کہنے لگے " پلیز اسٹینڈ اپ، اینڈ انٹرڈیوس یور سیلف۔ ہو (دا ہیل) آر یو"۔

 ہم نے فوراً اپنا تعارف یوں پیش کیا "آئی می مائی سیلف خود اسٹوڈنٹ آف دس ویری کلاس۔ مائی نیم دس ہے اور رجسٹریشن ڈیٹ ہے۔ اینڈ آئی کم ایتھے فار انگریجی لیچکررر"۔ یہ سُن کر موصوف کہنے اوکے "سٹ ڈاؤں اینڈ نیکسٹ ٹائم ٹیک کئیر آف کلاس ڈیکوریم" ہم ابھی اس جھٹکے سے باہر ہی نہیں آئے تھے کہ صاحب فر فر انگریجی میں کورس کونٹینٹ کے نام پر کچھ سمجھانے لگے اور ہم مجسمہ حیرت بنے بقول فراز صاب آنکھ بھر کر انکو دیکھنے لگے۔ لیکچر تمام ہوا بندے نے سر کو یہ یقین دلایا کہ استاد کا احترام انہی سے شروع ہر کر انہی پر ختم ہو جاتا۔ (اب اندر کی بات کون بتاتا کہ یہ احترام ڈنڈے کے زور پر کروایا جاتا رہا تھا۔) اور بندہ اس کے لئے معذرت خواہ ہے آئندہ احتیاط برتی جائے گی۔
 بات آئی گئی ہو گئی اور سر روز  آ کر فر فر انگریجی میں لیکچر جھاڑنے لگتے۔ پہلی خوشگوار حیرت جو ہمیں ان سے ملکر ہوئی اسمیں بہت درجے اضافہ انکے طریقہ تدریس نے کر دیا۔ یہ ہمارے ابتک کہ تجربے سے بلکل ہٹ کر تھا۔ کچھ  ایسا تھا ہم آئندہ انگریجی کلاس میں بور نہ ہوئے بلکہ برعکس پچھلے تجربوں کی اب ان کے لیکچرز کا ہفتہ بھر انتظار کرتے رہتے۔ حضرت کلاس میں داخل ہوتے ہی ایک دلچسپ واقعہ یا بات سے بات  شروع کرتے اور آہستہ آہستہ اسکو اپنے لیکچر سے نتھی کر کے اپنی بات مکمل کئے دیتے۔ یوں لیکچر کا لیکچر ہو جاتا اور بات کی بات۔ علاوہ ازیں انکی کلاس میں سوال پوچھنے کی بھی اجازت عام تھی۔ بقول شخصے جب بھی ہمیں کوئی چیز فری دی جاتی ہے ہم بحیثیت قوم اسکا بے دریغ استعمال کر کے اسکی اہمیت کھو دیتے۔ ایسے ہی ہم سوال کرنے کی اجازت کو دوران لیکچر ہی استعمال کرتے جس سے آہستہ آہستہ انہیں یہ کم کرنا پڑی چونکہ ہم بات مکمل ہوئے بنا ہی سوال داغ دیتے۔ لیکن کمال کی بات یہ تھی بہت کم ہی ایسا ہوا کہ انہوں نے اس پر سرزنش کی ہو ۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا ورنہ تو ماسٹر اسلم صاب؛ "اگے تسی سمجھدار اوہ۔"
 بانو قدسیہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ "پڑھا لکھا آدمی ہمیشہ اپنے علم کے ہنٹر سے دوسروں کو ہانکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔" ایسے ہی سر بھی ہر کلاس میں اک نئے عجیب و غریب انگریج لکھاری کی کتاب لیکر موٹے موٹے الفاظ کے تیر برسانے لگتے۔ اُنکے اپنے تئیں ان "سقراطی و بقراطی"باتوں کی سمجھ تو کم کم ہی لگتی لیکن بھلی ضرور معلوم ہوتیں۔ لہذا ہم بھی بڑھ چڑھ کر اپنی افلاطونی کا مظاہرہ کرتے۔ ہمارے اس لایعنی بحث پر وہ سبکی کرنے کی بجائے مزید بات کرنے کا حوصلہ دیتے اور آفس لائن کھلی رکھنے کا عندیہ بھی۔ جب ہمیں اس ایمرجنسی لائن کا پتہ چلا تو ہم نے اس کے ساتھ بھی وہی کیا جو ہم نے 1122 یا دہشتگردی کے سلسلے میں بننے والی ایمرجنسی لائنز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یعنی وقت بے وقت جا انکے آفس میں دھمکتے اور لگتے ادھر اُدھر کی ہانکنے۔ جس پر وہ شائد کبھی کبھار عاجز بھی آ جاتے بلکہ انکے آفس میں موجود ساتھی استاد بھی پریشان ہو جاتے۔ ہماری اس الغم بلغم کو سننے کے باوجود بھی وہ سدا ہنستے مسکراتے ہوئے سوالوں کا جواب دیتے رہے۔ہاں یہ ضرور تھا کہ چائے وغیرہ کا پوچھتے تو ضرور تھے لیکن کبھی پلائی نہیں۔
  ہر روایتی قسم کے استاد کی طرح اس "انگریجی والے" نے بھی ایک کہانی تیار کی ہوئی ہے۔ البتہ انکی کہانی محبت کی ہے اور ہم مجموعی طور ایسے ہی موضوعات کے دلداہ۔ یہ کہانی من و عن ان سے پڑھے ہر کلاس  نے سُن رکھی۔ اور کچھ ہو نہ ہو البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کہانی کے بعد کلاس میں ایک آدھ جوڑا ضرور بن جاتا ہے۔ یوں یہ کہانی امر ہو جاتی ہے۔ اور شائد اب سے دو، تین سو برس بعد پنجابی کی لوک دستانوں میں یہ بھی شامل ہو۔ علاوہ ازیں آپ ہر کلاس میں پانچ سے دس منٹ  زوایہ نامہ اور واصف خیال کا زکر ضرور ملیں گے۔ لیکن تصوف کے یہ دس منٹ شخصیت کی تعمیر کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انکو جامعہ کی پسندیدہ استاتذہ مٰیں شمار کیا جاتا ہے۔ کتب بین کے علاوہ تماش بین بھی اعلٰی پائے کے واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے یونی کا کوئی ایونٹ ہو سب سے پہلے وہاں پہنچے پائے جاتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ مخصوص قسم کا استادی فاصلہ قائم رکھنے کی بجائے ایسے مواقعوں پر طالبعلموں سے گھل مل کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں فلم بینی میں وہی مقام رکھتے ہیں جو امین گنڈا پوری صاحب بلیک لیبل شہد کھانے میں رکھتے ہیں۔ دعوی ہے کہ آخری دس برسوں میں آنے والی فلموں کے متعلق وہ یونہی بتا سکتے جیسے "آفت اقبال" کے شو میں نصیر بھائی ماضی کے گانوں کے شاعر،فلم وغیرہ کا نام بتاتے تھے۔ (اب  انکو چیلنج آپ خود کر سکتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری پر۔) یوں تو حس ظرافت بھی خوب پائی ہے لیکن کبھی کبھار اظہار غصہ بھی کر جاتے ہیں یہ الگ بات ہے بھول بہت جلد جاتے ہیں۔
 انگریجی والے صاحب بلا کے سیلز مین بھی ہے۔ ایک دن کا زکر کلاس میں تشریف لائے تو انکے ہمراہ عطر کی چند شیشیاں بھی تھیں جن سے کمرے کی فضا معطر ہو گئی۔ اورہ پھر کسی بس میں پھکی بیچنے والے ماہر کر طرح خوبیاں گنوانے لگے۔ یوں تو انہوں نے اسکے علاوہ بھی متعدد قسم پکھیاں بیچیں لیکن ٹیڈ ٹالک کی پھکی اُن سب میں سے اعلی تھی۔ معلوم نہیں کہ اب وہ عطر والے یا ٹیڈ ٹالک  کے ساتھ پرسینٹیج پر کام کرتے ہیں یا پھر انہی کے لئے کام کرتے ہیں لیکن پارٹ ٹائم استادی کرتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں چورن بیچنے کا وصف بخوبی موجود ہے۔ جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے لیکچرز کو کچھ اس انداز میں بیچتے ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی آپکو یہ منجن خریدنا ہی پڑتا ہے۔ 
قیاس ہے کہ انکی اسٹیفن کووے صاحب،  جی جی وہی "کامیاب لوگوں کی سات اہم ترین خوبیوں والے" اُن سے دور کی سگیری پڑی ہے- انکے چورن کو بیچنا تو لازم خیال کرتے ہیں- لیکن حیف صد حیف کہ انکے اس چورن کو شائد ہی کوئی خریدتا ہے- یہی وجہ ہے انکی شخصیت و کردار میں بہتری کی مسلسل کاوشوں کے باوجود چیدہ چیدہ ہی کوئی مثال نظر آتی ہے البتہ وہ پھر بھی اپنی سے کوشش میں مشغول رہتے ہیں- علاوہ ازیں سیاست میں چائے والے صاحب انقلابی سوچ رکھتے ہیں اور جسکا اظہار گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے-انکی انقلابی سوچ کی شائد وجہ یہ بھی ہو سکتی کہ رومان پسند انتہا کہ ہیں۔شنید ہے کہ اسی رومان پرستی کے چکر میں آفریں آفریں کوک اسٹوڈیو ورژن لوپ پر لگا کر سُنتے رہے ہیں۔

2 تبصرے

Click here for تبصرے
3 مئی، 2017 کو 8:00 PM ×

جناب۔۔ہمیں اس چشمے سے فیض یاب ہونے کا مختصر موقع ہی مل سکا۔۔

Balas
avatar
admin
26 ستمبر، 2022 کو 1:37 PM ×

آخر میں آ کر کیا ہو گیا استاد صاحب کو🤕

Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔