"چوہدری صاب زندہ باد"

چوہدری صاحب اپنے ڈیرے پر بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے۔انکے رنگلیے منجے کے پیندے کی طرف بیٹھا ایک مزارع ان کے پاؤں ایسے دبا رہا تھا کہ ہاتھ کم ہلتے اور جسم زیادہ۔ کئی دفعہ چوہدری صاب کی ڈانٹ کھانے کی باوجود بھی اسکے طرز عمل میں رتی بھر فرق نہ آیا۔چوہدری صاب کے سامنے مزارعے ایک خاص ترتیب اور انداز میں بیٹھے تھے۔انکی حاضر کا سبب گاؤں کی بدلتی ہوئی فضا پر رپورٹیں حاصل کرنا تھا جن پر وہ معمور تھے۔
سب سے پہلے فیقا موچی بولا چوہدری صاب گاؤں کے حالات دن بدن بدلتے جارئے ہیں۔لوگ کی رائے آئے روز  آپکے خلاف ہوتی جا رہی، وہ آپکی چوہدراہٹ سے اکتا گئے ہیں۔شہر سے آنے والے بابو نے ان میں اپنے حقوق کا خناس بھر دیا ہے۔ اور ہمہ وقت لوگوں کا ایک جمگھٹا اس کے پاس رہتا ہے دو اٹھ کر جاتے ہیں تو چار آ جاتے ہیں۔ شہری بابو کا کہنا ہے کہ چوہدری اور انکے ہمنوا آپ کے حقوق پر غاصب ہیں۔اور وہ نہیں چاہتے کہ۔۔۔۔۔۔۔
فیقے کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ  خادو میراثی اسکی تائید کرتے ہوئے بولا چوہدری صاب وہ مویا تو یہاں تک کہتا ہے کہ چوہدری صاب چاہتے ہی نہیں کہ آپ لوگ کو یہ حق دیے جائیں چونکہ اسی میں چوہدری اور اسکے اقتدار کی بقا ہے ۔تبھی تو گاؤں کے اسکول کی عمارت ابھی تک کچی ہے اور اسکا درجہ پرائمری تک ہی ہے آگے نہیں بڑھ سکا اوریہاں ہسپتال تو کجا ایک ڈسپنسری تک کی سہولت تک نہیں دلائی گئی۔ اور تو اور گاؤں کو بڑی سڑک سے ملانے کے لئے جو پگڈنڈی ہے اسکو سڑک تو کجا بنانا سولنگ تک نہیں لگوایا گیا۔نالیوں کا نظام درہم برہم ہے لیکن ان مسائل کی طرف توجہ تک نہیں کی گئی یہی وقت ہے کہ چوہدراہٹ کا تاج ان سے چھین کر کسی اور کہ سر پر رکھ دیا جائے جو آپ کے مسائل سے واقف ہو آپ میں سے ہو تاکہ اسکو مسائل معلوم ہوں اور وہ ان کی حل پر سنجیدگی سے توجہ دے-
خادو کے چپ ہونے کیبعد چند لمحوں کا پر معنی سکوت طاری ہوا!!! پھر اچھو ترکھان بولا مہاراج ہم تو آپ اور آپکے بڑوں کے احسان مند ہیں ہمارا جینا مارنا آپ لوگوں کیساتھ ہی ہے۔ہم نے آپکا نمک کھایا ہے لیکن وہ کہتا ہے چوہدری جان بوجھ کر کمیوں اور ہاریوں کو اپنے تلے رکھتا وہ چاہتا ہی نہیں کہ انکو اپنے حق سے آگاہی ہو اسمیں اس کا فائدہ ہے یہی وجہ ہے وہ آپ لوگوں کو تعلیم سے دور رکھتا ،کہ یہ نئی تعلیم صرف خرابی کی وجہ اور مغرب کی ہماری تہذیب اور مذہب کو پراگندہ کرنے کی ایک چال ہے۔ مالک ہم  تو آپکے نوکر ہیں لیکن شہری بابو کی باتیں بھی دل کو بھلی سی لگتی ہیں۔ اچھو ترکھان بولاجو کچھ حد تک شہری بابو  کی باتوں سے مرعوب نظر آتا تھا کہنے لگا چوہدری صاب اب اس تحریک کو دبانا مشکل ہے،اسکی باتیں سیدھی دل میں گھر کرتی اور ٹھیک ہی تو کہتا ہے کہ نسل در نسل سے یہ غلامی کا طوق ہمارے ہی گلے میں کیوں پڑا کیا سبھی انسان برابر نہ ہیں ؟؟کیا اسلام کی یہی تعلیم نہیں کہ کسی کو کسی پر کوئی فضلیت نہیں تو پھر کیوں ہم پر ہمیشہ آپکا ہی خاندان راج کرتا چلا آ رہا ہے کب ہمیں بھی یکساں مواقع اور سہولیات مہیا ہونگی؟؟ اگر یہ تعلیم ایک چال تو آپکے بچے شہر جا کر بڑے اداروں سے اعلی  تعلیم کیوں حاصل کر رہے ہیں؟؟جبکہ ہمیں یہاں ابتدائی  تعلیم بھی ٹھیک سے میسر نہیں پانچویں کیبعد بچوں کو نہر پار کر کے ساتھ والے چک جانا پڑتا نہر پر پل ٹوٹا ہوا ہے جسکی وجہ سے ان کو یا تو پانی سے گزرنا پڑتا یا پھر اگر دوسرے پل سے گزرنا تو کئی کوس مزید پیدل سفر کرنا پڑتا۔غلط کیا کہتا ہے،شہری بابو؟؟؟ میں تو کہتا ہوں آپ جلد از جلد اسکو بُلا کر درمیانی رستہ نکال لیں اسمیں آپ کا اور گاؤں کا فائدہ ہے۔
سب کی باتوں کو سننے کیبعد چوہدری صاب نے مونچھوں کو تاؤ دیا اپنے چمڑے کے خاص حقے سے جس کو چوہدری صاب نے خاص الخاص اپنے لئے بنوایا تھا، کسی دوسرے کو اس سے  کش تک لینے کی اجازت نہ تھی۔ ایک لمبا کش لیا اور اسکا گاڑھا دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے ان سب کو جانے کا اشارہ کیا اور گنگو کو بلایا جو پنڈ کی حفاظت کرنے والے دستے کی سربراہی پر مامور تھا اور چند منٹ اسکے کان میں کچھ باتیں کہیں پھر اسکو بھی رخصت کردیا-
رات کا تیسرا پہر تھا سارے پنڈ میں خاموشی طاری تھی۔اس عمیق تاریکی اور سکوت کو محض کتوں کے بھونکنے کی آوزیں ہی چند توڑتی اور پھر خاموش ہو جاتیں۔ اتنے میں گاؤں کی داہنی طرف سے شور کی آوازیں بلند ہوئیں۔ شروع میں تو لوگوں نے کان نا دھرے چونکہ اس طرف کے گاؤں کی گاؤں سے پرانا شریکا تھا۔اکثر راتوں میں یہ کبھی کبھار دن کو بھی جب کوئی چوپایا ادھر سے ادھر جاتا تو دونوں طرف کے لوگوں میں ادھم مچ جاتا تھا لوگوں نے سمجھا آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا تھوڑی دیر میں معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد بھی جب شانتی نہ ہوئی تو لوگ باہر نکل آئے تو معلوم پڑا کہ ساتھی پنڈ کے محافط دستوں نے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی جسکا ہمارے دستوں نے مُنہ توڑ جواب دیا ہے۔
سورج کی کرنیں ابھی پورے گاؤں پرنہ پڑی تھیں کہ ڈھنڈورچی نے نقارے پر چوٹ لگا دی یوں ہنگامی حالت میں نقارے کی آواز سن کر سبھی چوہدری کے ڈیرے کی طرف بھاگے۔عورتوں نے گھروں میں دل تھام لئے" یا اللہ خیر" "یا اللہ خیر" کا ورد کرنے لگیں، ایکدوسرے سے کہنے لگی پہلے تو کبھی یوں نہیں ہوا،جانے کیا افتاد آن پڑی جو یوں صبح سویرے ہی نقارہ بجا دیا گیا۔عورتوں کی چہ میگوئیوں کے دوران ہی سبھی مرد چوہدری صاب کے ڈیرے پر پہنچ چکے تھے۔نقارے کی آواز سن کر بچے بھی دوڑے چلے آئے تھے وہ بہت خوش نظر آتےایک دوسرے سے اٹھکلیاں کر رہے تھے، جو بڑی عمر کے لوگوں کو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھیں۔ اتنے میں چوہدری صاب ڈیرے میں داخل ہوئے سبھی لوگوں نے کھڑے ہو کر انکا استقبال کیا،چوہدری صاب نے اپنی مخصوص نشست پر جا کر سبھی آنیوالوں کو خوش آمدید کہا اور شکریہ کہہ کرسب کو اپنی اپنی نشست پر بیٹھنے کا کہا۔
جب سبھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے تو چوہدری صاب کہنے لگے میری عزیز دوستو جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے پڑوسی گاؤں والے جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑی کر رہے ہیں۔اور رات بھی انہوں نے تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کر کے ہمارے دستے کا ایک نوجوان شہید اور کچھ کو شدید زخمی کردیا۔ ہمارے دستے نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا حملہ آوروں میں سے دو کو موت کی نیند سلا دیا جبکہ چار کو قیدی اور کچھ ساری زندگی کے لئے زخم نشانی لیکر لوٹیں ہیں امید ہے کہ وہ ان زخموں کو سبق کے طور پر لینگے اور آئندہ حملہ آور ہونے سے قبل متعدد بار سوچیں گے۔ میرے گاؤں کے عزیز لوگو جیسا کہ آپ جانتے ہیں گاؤں اس وقت کافی نازک موڑ سے گزر رہا ہے گاؤں کے اندرکچھ مسائل ابھر رئے ہیں جنکو لیکر گاؤں میں مختلف دھڑے بن گئے ہیں پڑوسی گاؤں شائد اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہےاور آپکو یہ بھی معلوم کہ  داہنی طرف والا گاؤں نے دو دہائی قبل بھی ایسے ہی جارحیت کی تھی جس کا ہمارے قابل نوجوانو نے مُنہ توڑ جواب دیا اور سات دن کی مسلسل لڑائی کیبعد انکو پسپائی اختیار کرنے پڑی جسپر پھر انہوں نے شہر کے بڑوں کو بلا کر صلح کرنے میں ہی عافیت جانی۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اس لڑائی میرے والد بھی شہید ہوئے اور آپ میں سے کئی ایک کہ والدین،بیٹوں اور بھائیوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔رات کی جھڑپ کیبعد یہ اکٹھ اسلئے کیا تاکہ پڑوسی گاؤں کسی بے خبری میں نا رہے اسکو معلوم ہونا چاہئیے کہ ہم اپنے شہیدوں کا لہو بھولے نہیں نیز میں آپکو یقین دلانا چاہتا ہوں کہک  میرا خاندان کل بھی آپکے ساتھ کھڑا تھا اور آج بھی آپکے ساتھ ہے، اس لڑائی میں ہم سب برابر شریک ہیں اور جو بھی ہمارے پیارے گاؤں کیطرف میلی آنکھ سے دیکھے گا پھر وہ آنکھ دیکھنے کی قابل نہ رہے گی۔ میں جانتا ہوں کہ یہ مسائل بہت ضروری اور حل طلب ہیں لیکن وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہمیں آپس میں اتحاد کو تقویت دینا ہوگی۔ مزید یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری صاب مزید کچھ کہنے والے تھے کہ مجمع میں سے ایک نحیف سے آواز آئی "چوہدری صاب زندہ باد" اور پھر ہر طرف سے یہ نعرہ بُلند ہونے لگا۔
"چوہدری صاب زندہ باد" "چوہدری صاب زندہ باد"
"چوہدری صاب زندہ باد" "چوہدری صاب زندہ باد"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔