مرونڈا نامہ


جب درخت اپنے پتوں کا رنگ بدل کر انکے بوجھ سے آزاد ہوکر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ ہوا میں ہلکی سے خنکی کا شائبہ ہونا شروع ہوتا ہے-اگرچہ سورج  ابھی بھی اپنی تمازت سے یہ باآور کروانے کی کوشش کرتا ہے اسکا دم خم باقی ہے،لیکن پھر بھی دھوپ سینکنے میں ایک عجیب سا لطف محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اس دھوپ میں اگر آپکے پاس مُنہ ہلانے کو کچھ دستیاب ہو تو مزہ دو بلکہ سہہ بالا ہوجاتا ہے۔سرد موسم کی ان سوغاتوں  میں کئی چیزیں شامل ہیں جیسے پنیاں،مالٹے،ڈرائی فروٹس وغیرہ لیکن مرونڈے کا الگ ہی مزہ ہے۔
بقول شخصے "وابستہ تیری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں" اگرچہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یادوں کیساتھ تلخیاں ہی کیوں منسوب رہتی ہیں حتی کہ خوشگوار یادیں بھی آہستہ آہستہ تلخی کا سبب بنتی جاتی ہیں۔ ایسے ہی آج میں مرونڈا کھا رہا تو ماضی کے دریچوں سے چند کھڑکیاں کھلی اور تلخیاں کہہ لیں یا یادوں کے خوشگوار جھونکے آئے۔ پہلی کھڑکی کھلی تو پھپھو مرحومہ آواز دے رہی تھی۔
"اے لے چاول تے ماسی جیراں کولوں بھنا لیا،اونوں آکھی سہی طرحاں بھن کے دیوے لال کرے، پر ساڑ نہ دیوے۔ جا!!تے تیرے آون تک میں گڑ دا شیرہ بنا لینی آں۔ فئیر مرونڈ بنا دیواں گی ویکھ تے کیویں خشکی آ گئی اجے تے سردی چنگی طرحاں آئی وی نہیں۔ جا میرا پتر ہن چھیتی کر"۔
ایک وہ مرونڈا تھا اور ایک یہ مرونڈا یوں لگتا ہے جیسے چاولوں کے دانوں کو کس طرح ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا ہے ہاں بس اسکی چمک دمک زیادہ ہوتی۔ ذائقہ تو پھر دور کی بات ہے،اسمیں تو مٹھاس بھی یوں سمجھ لیں جیسے چینی کی جگہ کینڈرل ڈال دی ہے۔ اتنے میں ایک دوسرا دریچہ کھلتا ہے۔
میں بے بےسے کہتا ہوں ہوں پنیاں بنا دیں وہ کہتی ہیں: یہ چاول لیجاؤ چکی سے آٹا پسوا کر اور پھپھی سے کہو بنا دیں۔ میں کہتا ہوں تے فئیر میں چاول وی  پھپھی کولوں لے لینا اے وی احسان کی کرنا اے۔ میں پھپھی کے گھر جاتا ہوں۔یوں اپنے دروازے کی دہلیز پار کی اور پھپھی کے گھر پاؤں رکھ دیا،درمیاں میں محض چھ فٹ کی ایک گلی ہے تب یہ گلی بھی گھر کا ہی حصہ لگتی تھی، جا کر پھپھی سے کہا پھپھی چاول دے میں آٹا پسوا کر لاتا ہوں تو پنیاں بنا دے بےبے بنا کر نہیں دے رہی۔ پھپھی "لے پتر اے وی کوئی گل اے لے ہنے لیجا تے گل سن، حیاتاں چھیمبی کول جاویں۔اونوں آکھ پھپھی بھیجیا اے پنیاں آلا آٹا پی دے ہتھ آلی چکی تے۔ دوجی چکی دا آٹا موٹا ہندا تے پنیاں چنگیاں نہیں بندیاں تے سُن واپسی سے کباراں دی دوکان توں بادام وی لئی آویں چنگے ہندے نیں وچ پا دیاں گی۔ میں اپنے پتر نوں اج ای پنیاں بنا دینی اے تیرے بیبے نوں وی پچھ لینی اے۔ جامیرا پتر چھیتی کر"۔
میں نے مرونڈے کا ایک اور ٹکڑا نکالنے کے لئے شاپر میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ نکلتا ہے جسپر مرونڈا بنانے والے کا پتہ اور فون وغیرہ درج ہے ایک دفعہ تو جی میں آیا ابھی کال کر پچھوں بھئی اگر ہمیں شوگر ہے تو ہم رات کو دس پوائنٹ انسولین زیادہ لگا لینگے تہاڈی مہربانی تھوڑی چینی پا لیا کرو۔ فئیر بقول مفکر مشرق شیخ "رئیسانی" صاب "مرونڈا مرونڈا ہوتا ہے،جیسا بھی ہو" سوچ کر ارادے سے باز آیا چلو یہی سہی۔ لیکن یادیں اپنی اپنے ارادے سے باز نہیں آئی تھی ایک اور تازہ جھونکا آتا ہے۔
بادلوں نے صبح سے کن من لگا رکھی جس کے سبب سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا تھا صبح سے برآمدے میں بیٹھ بیٹھ تھک گیا تو اٹھ کر پھپھی کیطرف چلا گیا تو دیکھا پھپھی دلاان میں بیٹھی چکی پیس رہی میں پاس چلا گیا پوچھا پھپھی کیا ہورہا ہے کہنے لگی کنیاں پے ریاں سن تے میں سوچیا چلو پوڑے (چاول دی روٹی) بنا لینے آں۔ویکھیا آٹا مکیا سے آٹا پیس رئی آں۔ میں آکھیا چل فئیر چھیتی کر پھپھی میرا وی دل کریا کہندی لے فئیر ہن توں پی آٹا ،تے میں جہیڑا آٹا پیس لیا اوندیاں روٹیاں بنانیاں آں۔ تے ویکھ دھیان نال چاول آہستہ آہستہ ڈالنا اور زیادہ پیسنا ویکھ جہیڑا دانا زیادہ پسے گا اوہ ای چنگا آٹا بنے گا۔ پتر بیشک پس جاؤ لیکن مندا نہ بنو۔ہن میں توا رکھنی آن تے  توں آٹا پی۔ چل میرا بییبا پتر شاباشے چھیتی کر"۔
میں دوبارہ مرونڈا نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھتا ہوں تو معلوم پڑتا ہے کہ اب آخر دو ڈلیاں ہی رہ گئی ہیں۔ میں انکو پکڑ کر ایک دفعہ پر ماضی کا دامن کھنگالتا ہوں۔ اس دفعہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس کلیجی رنگ کا سویٹر پہنے غالباً ششم یا ہفتم کلاس میں بیٹھا ہوں۔ استاد جی حکم دیتے ہیں کل کے کام کی کاپیاں رکھ جاؤ۔جنکے پاس نہیں ہیں وہ ایدھر تختہ سیاہ کے پاس کھڑے ہو جائیں۔ میں حسب عادت و سابق آرام سے وہاں جا کر کھڑا ہو جاتا استاد جی حاضری کے رجسٹر سے نظر اٹھاتے قطار میں پہلا ہی لڑکا مجھے دیکھ کر کہتے ہاں بھئی اج کی ہویا۔ میں نے گزارش کی استاد محترم سچی گل اے کم کیتا سی۔ آتے وقت کاپی بستے میں رکھنا بھول گیا ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو ابھی جا کر اٹھا لاتا ہوں۔ استاد جی کہنے فرمانا لگے پتا ہے مینوں جو گھر بھول گئے ہوں۔ "ادھی چھٹی ٹیم،پونے نال مل کے مرونڈا کھانا تے کدی نہیں بھلدا، اے چالاکیاں کسے ہور نوں ویکھیا کریا جنی تیری عمر اونا میرا تجربہ اے"۔
مرونڈا ختم کرنے کیبعد میں سوچتا ہوں کہ بزرگوں نے یہ سوغاتیں جانے کیا سوچ کر بنائی ہونگی۔اب بھلا چاولوں اور گڑ کا کیا تال میل، یا گڑ میں چاولوں کا آٹا ڈالنے سے کیا حاصل لیکن  ذائقہ تو اپنی جگہ تاثیر بھی موسم کے حساب سے لاجواب ہوتی۔ گڑ ہو یا اسکی پنیاں یا مرونڈا سبھی میں چاول اور دیسی مکھن کی تاثیر ملتی ہے تو پنجاب کی خشک سردی سے بچنے کی حرارت اور توانائی جسم کو اندر سے ہی مل جاتی ہے۔لیکن بقول پیر صاب "رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی"۔ اب پنیاں،گجریلا یا مرونڈا  وغیرہ وغیرہ دستیاب تو ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ دستیاب ہیں۔لیکن نہ تو اب وہ مزہ ہے نا لذت ۔ شائد وہ  مٹھاس ان رشتوں کی  محبت میں پنہا تھی جوں جوں ہم اس سے نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ان چیزوں کے ذائقے  سے بھی محروم ہوتےجا رہے ہیں۔۔۔۔۔


 
 

1 تبصرے:

Click here for تبصرے
12 نومبر، 2015 کو 11:27 AM ×

بہت عمدہ لکھا یادوں کی اس مٹھاس میں شامل کرنے کا شکریہ

Selamat کوثر بیگ dapat PERTAMAX...! Silahkan antri di pom terdekat heheheh...
Balas
avatar
admin
تبصرہ کرنے کے لیئے شکریہ۔